“گنوا دی ھم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی”:تحریر ثمینہ ریاض چوہدری

نفسا نفسی کے اس دور میں ہر شخص اتنا مصروف ہے کہ اپنے خونی رشتوں کے لیے بھی وقت نہیں ملتا ،کئی کئی دن تک ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والوں کی آپس میں ملاقات اور بات چیت نہیں ہو سکتی ، ہر شخص اتنا مصروف ہوتا جا رہا ہے کہ آنے والے وقتوں میں اپنے خونی رشتوں سے ملتے وقت بھی شاید تعارف کروانا پڑے ،شاید ایسا کہنا آپ کے لیے انتہائی مضحکہ خیز ہو لیکن اک دن ایسا ہونا ہے اور اس کی بڑی وجہ یقیناً مادیت پرستی ہو گی۔

اسی نفسا نفسی اور بھاگ دوڑ کے میدان میں ایک دن کسی تقریب میں میری بچپن کی ایک سہیلی سے بہت عرصہ بعد ملاقات ھوئی، ہماری خوشی دیدنی تھی ہوتی بھی کیوں نا، کیونکہ ہم نے بچپن سے لڑکپن اور پھر جوانی کی دہلیز پر اک ساتھ قدم رکھا تھا پھر وقت سرپٹ گھوڑے کی طرح تیزی سے بھاگنے لگا اور ہمارے ہاتھ سے اس کی لگام چھوٹ گئی اور اپنی اپنی مصروفیات میں ہمارا رابطہ بھی کٹتا چلا گیا ،مگر سیانے کہتے ہیں کہ انسان اگر زندہ ہو تو کسی نہ کسی موقع پر ملاقات ہو ہی جاتی ہے ایسے ہی ہم بھی مل رہی تھیں ، بہت دیر تک رسمی غیر رسمی ڈھیروں باتیں کیں۔ بچوں اور گاؤں کے بارے جب بات سے بات نکلی تو اس نے حیران کن بات کی جس نے مجھے بہت کچھ سوچنے کے بعد بالآخر یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا۔
وہ کہنے لگی کہ مدت بعد اک عزیزہ کی شادی کے سلسلے میں گاؤں جانا ہوا ،فلاں فلاں سے ملاقات ھوئی ، اب وہ بڑے فخریہ انداز میں کہنے جب ھم وہاں سے واپس آنے لگے تو میری بیٹی نے کہا مما ابھی شادی کی رسمیں ھوئیں نہیں اور ھم جا رہے ھیں، ابھی تو دلہن نے سات پھیرے بھی نہیں لگائے، نہ اسے دلہا کے پلو سے باندھا گیا، اک بار پھر اس نے بھرپور قہقہہ لگا کر میری طرف داد بھری نظروں سے دیکھا مگر حیرت میں ڈوبی ھوئی نظروں سے اسے دیکھتی رہی اور میرے دماغ میں طرح طرح کے سوالات اٹھتے رہے جو میں چاہتے ھوئے بھی اس سے نہ کر سکی۔
جہاں اس کے لیے یہ بات قابل فخر تھی وہیں میرے لیے انتہائی دکھ کے ساتھ ساتھ لمحہ فکریہ، میں خود کو اس معاشرے کا حصہ سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو قصور وار سمجھ رہی تھی ،
مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا تھا کہ ہم سب کہیں نہ کہیں اپنے دشمن ہیں ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے جہاں ہمارے لیے تعلیمی میدان میں آسانیاں پیدا کیں وہیں ہماری روایات کا گلہ بھی گھونٹ دیا ، ہماری ثقافت اور اقدار کو تباہ کر کے رکھ دیا ،وہ بے تکان بولتی جا رہی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ ہم مذہب کے معاملے میں کس قدر پستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اور اس جدیدیت نے ہمیں اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ ہمارے بچوں کو نکاح جیسی سنت کے بارے میں کچھ علم نہیں کہ جس کے بارے میں نبی نے فرمایا کہ نکاح میری سنت ہے اور نکاح کی مجلس میں بیٹھنا انتہائی مستحسن عمل ،ہمارے بچوں کو ایسی بابرکت محفلیں دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا ہم انہیں ہر طرح کی آسائشیں دیتے ہیں ہر طرح سے ان کا خیال رکھتے ہیں ،دھوپ چھاوں کا ہر موسم اپنے اوپر جھیلتے ہیں،انہیں پیسہ کمانے کی مشین تو بناتے ہیں لیکن معاشرے کا بہتر انسان بنانے کی کوشش نہیں کرتے،ہم نے انہیں اسلامی روایات و اقدار کے بارے میں کبھی بتایا ہی نہیں تبھی تو شادی ہال میں ڈھول ڈھمکا، رقص و شراب کی محفلیں اور ڈھول کی تھاپ پر تھرکتے جسم اور دو انسانوں کے ساتھ بٹھا کر فوٹو سیشن کو ہم نے جدیدیت اور ہمارے بچوں نے اسے موج مستی کے اک تہوار کے طور پر لے لیا ہے ،اس میں قصور ان کا نہیں ہمارا ہے ،مجھے گاؤں کی وہ ساری شادیاں آج بھی یاد ہیں جن پر ہفتوں پہلے خاندان اکٹھا ہوتا تھا انتظامات کے حوالے سے بزرگوں سے مشورے کو اک خاص حیثیت حاصل تھی،
لکڑی کٹائی اور دیگر تیاریوں میں نوجوانوں کا پیش پیش رہنا جیسے ہر شخص سمجھتا ہو کہ یہ اس کا ذاتی کام ہے، عورتوں کا دور دراز کے چشموں سے پانی بھر کے لانا ،کتنے رشتے دار ایسےہوتے تھے جن سے ایسے مواقع پر ملاقات ہو جاتی تھی دور کے رشتے دار بھی گھر کے فرد ہوتے تھے،دوسرے گاؤں سے آنے والی بارات کا استقبال اور خدمت کو گاؤں کا ہر فرد اپنے لیے اعزاز سمجھتا تھا اور گاوں محلے سے جانے والی دلہن کو ہر فرد قوم قبیلے کی تفریق کے بنا اپنی بہن بیٹی سمجھتے ہوئے نم آنکھوں سے رخصت کرتا اور ڈولی کے ساتھ جانے کو اپنا فرض سمجھتا تھا ،
گاؤں میں اگر کوئی فوتگی ہوتی تو سارا گاؤں اس درد کو محسوس کرتا تھا کئی دنوں تک محلے والے اس گھر میں تین وقت کا کھانا دیتے تھے ،دن بھر محنت مزدوری کرنے والوں کا بھی شام کو فوتگی والے گھر جانا اور لواحقین کا درد بانٹنا اپنا فرض خیال کرتے تھے لیکن صد افسوس کہ اب ہم اپنی ذات تک محدود ہو کر رہ گئے ہماری سوچ سمٹتے سمٹتے اپنے پیٹ تک آ گئ ہے۔ہم اپنی ذات کے گرد بنے دائروں میں قید ہو کر رہ گئے
ہماری تہذیب ،تمدن ثقافت مسخ ہو کر رہ گئی،اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا تعلیمی نصاب اور نظام ہے ،طبقاتی نصاب اور طبقاتی نظام تعلیم نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا ہے ،امیر غریب کے لیے الگ الگ نصاب اور طریقہ تدریس درسی کتب میں سے قرانی آیات آحادیث مبارکہ اور غزوات کو کھرچ کھرچ کر نکال دیا ہے ہمارا بچہ سائنس جیتا ہے سو سے ننانوے نمبر لیتا ہے لیکن اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اپنے سے کم نمبر لینے والے کو انسانوں کی صف میں شمار ہی نہیں کیا جاتا۔

ھم کتابوں میں پڑھتے آئے کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ھے۔ مگر۔۔۔۔۔۔ آج کتنے فیصد مائیں ھیں جو صحیح معنوں میں اپنے گھروں کو بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے درسگاہیں بنا دیتی ھیں؟ کتنے گھروں میں بچوں کو اسلامی تعلیمات، تاریخی واقعات، اخلاقی اقدار، تہذیب و تمدن ، معاشرتی اقدار اور صلہ رحمی کےحوالے سے بنیادی تربیت دی جاتی ھے؟
افسوس ھم تو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے لیے بھی تعلیمی اداروں پر تکیہ کئے ھوئے ھیں جہاں استاد نے بچے کو کورس کے دس سبق رٹا لگوا دیئے تو یہ سمجھ لیا کہ اس منصب کا حق ادا ہو گیا جس کے بارے میں نبی کریم نے فرمایا کہ: “میں قیامت کے روز معلم ہونے پر فخر کروں گا”۔
والدین فیسیں ادا کر کے یہ سوچتے ہیں کہ تعلیم کا مقصد پورا ہو رہا ہے تعلیم میں تو سو فیصد نمبر آ گئے تہذیب اور اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ، مسجد میں بچے کو ناظرہ پڑھایا گیا اسلام نہیں سمجھایا گیا ،اس مذہب کے بارے میں نہیں بتایا گیا جو انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کی بات کرتا ہے، میں کسی طور بھی سائنسی علوم کی مخالف نہیں لیکن اقدار کی پاسداری بارے اپنا وہی نکتہ نظر ہے جو اسلام کا ہے ،
ہم مغربی معاشرے کی برائیوں کو قبول کرتے ہوئے خود پر لاگو کرتے ہیں مگر کبھی بھی قوانین کی پاسداری نہیں کرتے،
وہاں کوئی زمین ہتھیانے کے لیے بھائی کا گلا نہیں کاٹتا ، غیرت کے نام پر عورت کو ونی نہیں کیا جاتا ، سڑک پر آنے والا شخص سنسان سڑک پر بھی قانون کا احترام کرتے ہوئے اشارہ نہیں توڑتا ،حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اچھائیاں ان تک ہم سے ہو کر پہنچیں تبھی تو اقبال نے کہا تھا کہ

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

اقدار سے دوری ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے ہم جس تہذیبی اور ثقافتی تنزلی کا شکار ہیں عین ممکن ہے کہ کل ہم پر ماتم کرنے والا بھی کوئی نہ ہو ،اس سے پہلے کہ ہم سب کچھ کھو دیں ہمیں سوچنا ہو گا، استاد،والدین اور طالب علم کو اپنی اپنی زمہ داری کا سامنا کرنا ہو گا ،ہم میں سے ہر شخص کو خود شناسی اور خود احتسابی کا سبق پڑھنا ہو گا ،ہمیں اپنی کھوئی ہوئی پہچان کو دوبارہ حاصل کرنا ہو گا اور اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو نمبر گیم سے نکال کر انسانیت کی دوڑ میں شامل کر دیں ،میں نہ جانے کتنی دیر وہاں بیٹھی یہ سوچتی رہی نہ جانے کس وقت اس خوش گوار ملاقات نے اپنا راستہ لے لیا اور میری سوچوں کی پوٹلیوں کی گرہیں تڑاخ تراخ ٹوٹنے لگی۔ تکلیف دہ سوال سر اٹھاتے رہے، آخر ھم کس طرف جا رہے ھیں؟؟؟ صحیح سمت کا تعین کیسے ممکن ھے؟؟؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

“گنوا دی ھم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی”:تحریر ثمینہ ریاض چوہدری” ایک تبصرہ

Leave a Reply to ATTA UR REHMAN ABBASI Cancel reply