رواں سال مون سون پورے ملک کے لیے بالعموم اور بلوچستان و جنوبی پنجاب کے لیے بالخصوص ہمارا امتحان تھا اور جب ہم بطور قوم اس امتحان کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہماری کارکردگی صرف فیل تک نہیں بلکہ مایوس کن نظر آتی ہے ،وہ تو افواج پاکستان کا بھلا ہو کہ ہر مشکل میں سیسہ پلائی دیوار کی صورت میں کھڑے ہو جاتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ طعنہ زنی اور کردار کشی کے جو تیر ہم پر چلائے گئے تھے ان کے گھاو کتنے گہرے تھے وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ کن کن القابات سے انہیں نوازا جاتا ہے بس یاد رہتا ہے تو صرف
اے ارض وطن وعدہ ہے تم سے ہمارا
جب ضرورت پڑی جان نچھاور کرینگے
اور وطن کے ان سپوتوں نے اپنا وعدہ نھبایا بھی خوب ہے ،ہمارے سوشل میڈیا کے جانبار جب سانحہ لسبیلہ پر زیریلے نشتر برسا رہے تھے، اپنے من کی ساری غلاظت اگل رہے تھے اور اب یہ بات تحقیقات میں بھی سامنے آ چکی ہے کہ دشمن ممالک کے متعدد اکاونٹس اس بہتی گنگا میں اپنا منہ کالا کرنے کے لیے آگ پر پیٹرول کا چھڑکاو کرنے میں مصروف تھے تاہم بقول منظر بھوپالی
غیرت جہاد اپنی ، زخم کھا کے جاگے گی
پہلا وار تم کرلو، دوسرا ہمارا ہے۔

پھر قوم اور اداروں کی ” غیرت ایمانی ” جاگی اور اب ان غلیظ کرداروں کے خلاف کاروائی کی بھی شنید ہے
سدرن کمانڈ کے سپوت اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سیلاب متاثرین کو بچانے کے لیے ہمعہ وقت مصروف رہے اور آج تک مصروف ہیں ۔ جیسے ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اگر افواج پاکستان فوری ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن کے لیے نہ نکلتیں تو ہمارے بلوچ بھائیوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا ۔
ایک طرف سدرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹینٹ جنرل سرفراز علی شہید گراونڈ لیول پر سارے آپریشن کی نگرانی کرتے خود نظر آئے اور عام پاکستانیوِں کو بچانے کے لیے اپنی جان وطن عزیز پر نچھاور کر دی ،لیفٹینٹ جنرل سرفراز علی شہید اور ان کے رفقاء نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور پوری دنیا میں سبز ہلالی پرچم کو سربلند کیا ہے تو دوسری طرف ان عناصر کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ بھی ہے جو فوج کے خلاف مہم چلاتے ہیں اور اسی فیصد بجٹ کی بات کرتے ہیں ۔ جہاں ایک کمانڈ کا کمانڈ ر خود مدد کے لیے میدان میں کھڑا ہو وہاں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے ٹروپس کس حد تک انسانیت کو بچانے کے اس مشن میں لگے ہونگے اور یہی وہ پیغام تھا بلوچ بھائیوں کے لیے جو عرصہ دراز سے محرومیوں کا شکار ہیں ۔بلوچستان کا شاید ہی کوئی ایسا دشوار گزار علاقہ ہو جہاں افواج پاکستان کی مدد نہ پہنچی ہو جبکہ دوسری جانب اگر ہم شہروں کی بات کریں تو عروس العباد کراچی میں بھی سول انتظامیہ فوج کے بغیر نکاسی آب کا بندوبست نہ کر سکی ۔

بدقسمتی سے ہماری قومی قیادت باہمی چپقلش اور سیاسی پوائنٹ سکورننگ میں مصروف ہے ایک ایسے وقت میں جب محکمہ موسمیات پہلے سے الرٹ جاری کر چکا تھا ہمیں اس حساب سے اپنی حکمت عملی ترتیب دینا تھی اور ساتھ ہی ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن کو ہائی الرٹ رکھنا تھا ایک طرف آدھا ملک پانی میِں ڈوبا ہوا ہے ،پسماندہ ترین علاقوں میں بسنے والے بے سروسامانی کی حالت میں پڑے ہیں تو دوسری طرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں آمنے سامنے ہیں ۔میڈیا کی سکرینیں بھی سیاسی محاذ آرائی اور بیان بازیوں پر فوکس ہیں کہیں ہمیں قوم کو جگانے کے لیے میڈیا پر بھی منظم مہم نظر نہیں آ رہی ۔ مملکت خداداد کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر اگر ہم ایک دوسرے سے جلسوں کا مقابلہ کرنے اور ناچ گانے کے بجائے یہ سارا بجٹ سیلاب متاثرین کے لیے مختص کر دیتے تو یقینا ان سیلاب متاثرین کے دکھوں میں کچھ کمی آ سکتی تھی ۔اس وقت بھی قوم عملاء بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرین کی مشکلات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہے ۔ افواج پاکستان بطور ادارہ اپنی تمام توانائیاں ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن پر صرف کیے ہوئے ہیں البتہ اس کے ساتھ ہی پوری قوم ،وفاقی و صوبائی حکومتوں اور بالخصوص میڈیا کی سکرینوں کو بھی اس قدرتی آفت پر مزکور رکھنے کی ضرورت ہے