آہ! 16 دسمبر
آج 15 دسمبر 2020 اختتام پذیر ہو چکا اور 16 دسمبر کی رات کا آخری پہر ہے ,رات کے تین بجکر 32 منٹ ہو چکے ہیں اور نیند انکھوں سے کوسوں دور ہے،نیند نہ آنے کی وجہ تاریخ کے تلخ اوراق ہیں،شاید تحریر مکمل ہونے تلک صبح صادق نمودار ہو چکی ہو۔16 دسمبر 1971 جب ہمارے ازلی دشمن مکاری کے ساتھ ہمارا ایک بازو ہم سے کاٹنے میں کامیاب ہوا اور ٹھیک 43 سال بعد اسی اذلی دشمن نے خونی بھیڑیوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے پشاور میں معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی۔
آہ!ہم آج سے ٹھیک چھ سال قبل وہ تاریک دن کیسے بھول سکتے ہیں،وہ منگل کا دن تھا اور ہم ساتھی رپورٹرز کے ساتھ پارلیمانی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں بیٹھے تھے، اجلاس کی صدارت سید خورشید شاہ کر رہے تھے کہ ہمیں اطلاعات ملنا شروع ہوئیں کہ پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے۔. 2007 کے بعد جو دوست متحرک رپورٹنگ کرتے تھے ان کے لیے اب یہ دہشت گردی ایک روٹین کی نیوز بن گئی تھی۔مجھے یاد ہے کہ اسلام آباد میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کی میں نے موقع پہ کوریج کی ہے۔میریٹ بم بلاسٹ میں شاید ہم پولیس اور امدادی کارکنوں سے بھی پہلے پہنچنے والے رپورٹرز میں سے تھے۔جہاں قیامت صغریٰ کے مناظر تھے ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی فلمی سین چل رہا ہے،درخت اکھڑے پڑے تھے،گاڑیاں جل رہی تھی،بلڈنگ شعلے اگل رہی تھی،اسی طرح میلوڈی میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا تو قسمت اچھی تھی یا رب کریم نے سانسیں لکھی ہوئی تھیں کہ جائے حادثہ سے چند منٹ پہلے گزرے تھے اور یہ چند منٹ دس منٹ سے بھی کم تھے ابھی پولی کلینک ہی پہنچے تھے کہ زوردار دھماکے نے اوسان خطا کر دہیے تھے،فورا واپس پلٹے اور دیکھا کہ جن سے علیک سلیک کرکے گے تھے وہ لوتھڑوں میں بدل چکے ہیں،اسی طرح لیاقت باغ حادثہ جس میں بی بی شہید نے اپنی جان نچھاور کی تھی،لیاقت باغ میں ہر سو تباہی ہی تباہی پھیلی تھی،زخمیوں کی چیخ و پکار ،کٹی پھٹی لاشیں بکھری پڑیں تھیں۔آبپارہ مارکیٹ,ایف ایٹ کچہری کے حادثات کو قریب سے دیکھا تھا اس لیے یہ خبریں روٹین لگنے لگی تھیں۔ تاہم اس روزمسلسل اموات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ایک موقع پہ ہم ساتھیوں نے چئیرمین کمیٹی کو چٹ بھیجی کہ پشاور میں بڑا حادثہ ہو گیا ہے اجلاس ملتوی کردیں تاہم چیئر مین صاحب نے سنی ان سنی کر دی۔شاید وہ بھی اسے روٹین ہی سمجھ رہے تھے،ایک موقع پر جب یہ تعداد پچاس پہ پہنچی تو ہم کھڑے ہو گے اور ایک ساتھی نے کان میں جا کے کہا کہ میڈیا جا رہا ہے نقصان بہت زیادہ ہے تو اسی وقت اجلاس کو ملتوی کر دیا گیا۔ہم پارلیمنٹ ہاوس سے بھاگے بھاگے دفتر پہنچے،مانٹیرنگ روم میں لگی ٹی وی سکرینوں پہ ماتم ہی ماتم تھا, وہ جگر گوشے تڑپتے لاشے میں تبدیل ہو چکے تھے،کھلتے پھول مسلے جا چکے تھے, مائیں جگر گوشوں کی تلاش میں ننگے سر بھاگی جا رہیں تھیں اور ہم سر پکڑے بیٹھے تھے۔
آہ 16 دسمبر! کیا تیرا ایک زخم اس قوم پہ کم تھا جو سالوں گزرنے کے باوجود بھرنے کا نام نہیں لے رہا،تو نے ہماری روح تک کو چھلنی کر دیا،
22 سالہ صحافتی زندگی میں شاید ہی میں کھبی جذباتی ہوا. 27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو میں جذباتی ہوا یا پھر سانحہ اے پی ایس پہ جذبات قابو میں نہ رہے۔شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم بچوں کو ہمیشہ ننھے منے فرشتے تصور کرتے ہیں اور بچہ دشمن کا ہی کیوں نہ ہو ہمیں وہ پیارا ہی لگتا ہے اور جب ایسے معصوم فرشتے لاشوں میں تبدیل ہو جاہیں تو جذبات کنٹرول میں کیسے رہ سکتے ہیں۔
16 دسمبر 2014 کا دن پوری قوم کیلیے تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔غیروں کے ٹکڑوں پہ پلنے والے سفاک دہشت گرد صبح 11 بجے اسکول میں داخل ہوئے اور معصوم بچوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی،بچوں کو چن چن کر قتل کیا۔ سیکیورٹی فورسز کے اسکول پہنچنے تک دہشت گرد خون کی ہولی کھیلتے رہے اور کچھ ہی دیر میں ان ظالموں نے 132 معصوم جانوں سمیت 141 افراد کو شہید کردیا۔ یہ دہشت گردی کی ایک ایسی کاروائی تھی جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ اہل پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا نے اس غم کو اپنا غم جانا۔
واقعے کے بعد ہر طرف خون اور معصوم بچوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور اگر پیچھے کچھ بچا تھا تو صرف شہید بچوں کے والدین کی آہیں اور سسکیاں تھیں۔ اسکول کے در و دیوار دہشت اور ہولناکی کی دردناک کہانی بیان کررہے تھے، دہشت گردوں نے اسکول میں درندگی کی ایسی مثال قائم کی کہ انسانیت بھی شرما جائے۔ لیکن سلام ان معصوم شہدا کو جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ان شہدا کے لواحقین کو جن کے بچے صبح اسکول تو گئے لیکن واپس گھروں کو نہ آئے۔ سلام ان بہادر اساتذہ کو جنہوں نے بچوں کو بچانے کی خاطر اپنی جان قربان کردی، بالخصوص پرنسپل آرمی پبلک اسکول طاہرہ قاضی کو جنہوں نے فرض شناسی اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان قربان کردی لیکن دہشت گردوں اور بچوں کے بیچ میں دیوار بن کر کھڑی رہیں۔ایسی جانثاری کی داستانیں دنیا میں کم ہی ملتی ہیں. میڈیا میں اس ظالمانہ کاروائی میں زندہ بچ جانے والی معصوم ایمن کا واقع رپورٹ ہوا ہے۔ننھی ایمن نے اس سانحہ کو اس طرح بیان کیا ”میں اپنی کلاس میں موجود تھی کہ 3 گندے لوگ اندر داخل ہوئے جن کے ہاتھوں میں ایسی چیزیں تھی جن سے خوفناک آوازیں آرہی تھیں جو میں فلموں میں سنتی تھی۔ وہ لوگ کسی اور ہی زبان میں چیخ رہے تھے۔ اسی دوران میری ٹیچر نے مجھے کہا کہ اپنی ڈیسک کے پیچھے چھپ جاؤ اور جب تک میں نہ کہوں باہر نہیں آنا۔ایمن نے بتایا کہ کچھ دیر بعد ”میں نے بچوں کی درد بھری چیخوں کی آوازیں سنیں اور میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں کیونکہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے لیکن بچوں کا خون دیکھ کر میں بہت ڈر گئی اور ڈیسک کے پیچھے بہت دیر تک چھپی رہی۔ میری ٹیچر بھی نہیں بول رہی تھی اور ان کا خون نکل رہا تھا۔نہیں معلوم کہ کتنی دیرتک ڈیسک کے پیچھے چھپی رہی لیکن کافی دیر کے بعد ایک اچھا انسان اندر داخل ہوا اور میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کہ ڈیئر باہر آجاؤ، اب تم محفوظ ہو۔ اس کے بعد میں باہر آئی تو میرے والدین کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ ایمن نے کہا کہ میں ایک بہادر بچی ہوں اور اسی اسکول میں تعلیم جاری رکھوں گی، اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلوں گی اور بڑی ہوکر ڈاکٹر بنوں گی۔“اسی طرح واقعے میں زخمی ہونے والا ایک اور 16 سالہ بچہ شاہ رخ خان نے بھی بتایا: ”میں اپنے دوستوں کے ساتھ اسکول کے آڈیٹوریم میں کیریئر کونسلنگ سیشن میں موجود تھا کہ اچانک 4 مسلح افراد پیرا ملٹری یونیفارم پہنے اندر داخل ہوئے اور اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے فائرنگ شروع کردی۔ ایک دہشت گرد چلایا کہ دیکھو ڈیسک کے نیچے بہت سے بچے چھپے ہوئے ہیں ان کو نکالو اور مارو۔ اس کے بعد بچوں کے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں اور میں سمجھ گیا کہ دہشت گردوں نے بچوں کو مارنا شروع کردیا ہے۔ دہشت گردوں نے میری ٹانگ میں 2 گولیاں ماریں۔ مجھے یقین ہوگیا کہ موت میرے سامنے کھڑی ہے۔ میں نے فوری فیصلہ کیا کہ مرنے کی اداکاری کرتا ہوں اس طرح شاید بچ جاؤں۔ میں نے اپنی ٹائی کھولی اور اپنے منہ پر باندھ لی تاکہ میرے کراہنے کی آواز نہ نکل سکے,میں نے دیکھا کہ دہشت گرد شہید ہوجانے والے بچوں کی موت کا یقین کرنے کیلیے ان کے جسموں میں گولیاں ماررہے تھے۔ ایک دہشت گرد کو میں نے اپنی
جانب بڑھتے ہوئے دیکھا تو میں نے آنکھیں بند کرلیں جب کہ میرا جسم خوف سے کانپ رہا تھا اور مجھے یقین ہوگیا تھا کہ موت میرے سر پر پہنچ چکی ہے۔ خوش قسمتی سے وہ دہشت گرد کچھ دیر وہاں کھڑا رہا اور ہال سے باہر چلا گیا جب کہ میں کچھ دیر اسی حالت میں زمین پر لیٹا رہا۔ چند لمحوں بعد میں نے اٹھنے کی کوشش لیکن شدید زخمی ہونے کی وجہ سے زمین پر گرگیا اور بے ہوش ہوگیا۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں اسپتال میں موجود تھا۔جب بھی ایمن اور شاہ رخ کی کہانی کانوں میں گونجتی ہے نیند انکھوں سے کوسوں دور بھاگ جاتی ہے یہ کہانی صرف دو معصوم فرشتوں کی ہے زرا چشم تصور میں دیکھیں تو سہی وہ ماں کے دلارے, وہ بابا کے لاڈلے گولیاں کھا رہے تھے تو ان پہ کیا بیت رہی ہو گی؟وہ کیا سوچتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے گے؟انہیں تو اپنا قصور بھی یاد نہیں ہوگا؟
ہم کیسے بے حس صرف چھ سالوں میں انکی قربانیوں کو بھول گے ان ننھے فرشتوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیکر پوری قوم کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا پھر وہ لڑی اتنی جلدی ٹوٹ کیسے گی۔ان شہیدوں کے لہو نے ہمارے اندر بدلے کے آگ جلائی تھی پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف سینہ سپر ہو گی تھی۔نیشنل ایکشن پلان بنا،سیکیورٹی فورسز نے قربانیاں دیں اور آج الحمد اللہ دھماکہ ہمارے لیے روٹین کی خبر نہیں رہا،
مگر کیا اب بھی ہم ایک ہیں؟اب بھی ہمیں مشترکہ خطرے کا احساس ہے؟۔زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ ہم ان 141 شہیدوں کی قربانیوں کو بھول چکے ہیں کیونکہ آج ہم آپس میں ہی دست و گریبان ہیں۔پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت بڑی قیمت چکائی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں عام شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے اس ملک کی خاطر قربانیاں دیں، ان قربانیوں کو کسی صورت رائیگاں نہیں جانا چاہیے۔ قومی اور عسکری قیادت کو مل کر دہشت گردی جیسے سنگین مسئلے کے سدباب کیلیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ کل کلاں پھر ہمارا کلیجہ چھلنی نہ ہو سکے…

ilyasabbasi044@gmail.com