کیا” آل ازاوکے” اب “او کے” نہیں رہا؟قلم کی جنگ :عقیل احمد ترین

اسلام آباد میں افواہ ہے کہ ALL IS OK سے بات اب آگے بڑھ گئی ہے ۔اسکی تصدیق یورپ میں میرے ایک بہترین ذرائع نے بھی دبے لفظوں میں کی ہے ۔بہت ساری وجوہات میں سے اسکی بڑی وجوہات میں کشمیر ،سی پیک اور ملکی معیشت ہے ۔معیشت کے انجن سے جس طرح سے دھواں نکل رہا ہے،اور کشمیر پہ جس طرح سے مودی اپنا کلیم منوا رہاہے اگر اس پہ فوری طور پر فائر فائٹنگ کے اقدامات نہ کئے گئے تو خدانخواستہ پاکستان کی حالت افغانستان سے بھی بری ہوجائیگی ۔
ٹڈ ی دل ،کرونا،تباہ کن بارشیں ،بیڈ گورننس ،ڈالر کی اڑان ،جی ڈی پی کا مائنس میں چلے جانا شاہد اب کچھ فیصلہ کن قوتوں کیلئے خطرے کا الارم بن گیا ہے اور اب جب ملکی معیشت کا دیوالیہ نکلنے کو ہے سنا ہے کہ CPEC کی افادیت “کچھ دوستوں” کو یاد آگئی ہے، ملکی اور غیر ملکی حالات اور خاص کر ریجنل پالیٹکس (خطے کی سیاست )کے تحت ایک بار پھر پالیسی شفٹ کے کڑاکے اب تبدیلی کے افق پر گونجنے لگے ہیں ۔سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانا ۔دفاعی بجٹ کو مطلوبہ فنڈز نہ دے سکنے کے زمینی حقائق چیزوں کو تیزی سے کھوکھلی چینج سے حقیقی تبدیلی کی طرف لیکر جارہے ہیں۔اعلیٰ سرکاری وسفارتی حلقوں میں یہ سرگوشیاں بھی سنی جانے لگی ہیں کہ چین اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک خاموش سمجھوتہ طے پاگیا ہے کہ چین امریکی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کریگا، بدلے میں امریکہ یا ٹرمپ ،سی پیک ،ون بیلٹ ون روڈ اور خاص کر خطے میں بھارتی مفادات کی پشت پناہی نہیں کریگا ۔
اڑتی اڑٹی یہ خبر بھی سماعتوں سے ٹکرا ئی ہے کہ کسی بڑی قوت نے ن لیگ کے ایک” نکے” کی سفارش کی ہے کہ اگر ان کو اقتدار میں لایا جائے تو وہ بہت سارے معاملات پر پاکستان کا ساتھ دینگے ۔سعودی عرب کے ٹرمپ کیساتھ سرد تعلقات ،لداخ میں چینی مداخلت اور اس پر امریکیوں کا معاملہ کو دبا جانا پاکستان کی اندرونی سیاست میں تبدیلی کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے ،یہ طے ہے کہ آج پاکستان میں وہ حالات یا سوچ نہیں رہی جو 2017-18 یا 2019 میں کی ابتدا میں ہم دیکھ چکے ہیں ۔
پیارے پڑھنے والو!
مسلم لیگ ن کے اندر مریم نواز کیساتھ کوئی خاموش سمجھوتہ طے پارہا ہے ،کچھ لوگ شہباز کیساتھ مریم نواز سے بھی رابطہ میں آگئے ہیں، مریم نواز کی “نہتی لڑکی” نے جو راستے بند کئےتھے اب ان کو کھولنے کیلئے CBMSپر عملدرآمد ہورہا ہے ۔اگرچہ مریم نواز کی خاموشی پر اب ان کےاپنے ہی کیمپ کے کچھ لوگ ہدف تنقید بنا رہے ہیں لیکن اس بار شاہد بات شخصیات سے بڑھ کر ملک کی ہے اس لیے سب دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پہ ہیں،سب طرف پراسرار خاموشی کے بعد اب سیاست کے بادشاہ آصف علی زرداری پھر بولے ہیں۔کچھ لوگ انکا بولنا وزیراعظم کی طرف سے پیپلزپارٹی یا سندھ حکومت پہ مستقل تنقید کا جواب سمجھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے،آصف علی زرداری نے جو زبان استعمال کی ہے وہ اسلام آباد کے کوریڈور میں بھی سنی جارہی ہےز
آج ہی وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چودھری کا ایک انٹرویو ملکی ،علاقائی اور عالمی بدلتی سیاست کے تناظر میں دیکھیں توآپ کو پاکستان کا منظر نامہ زیادہ کلیئر نظر آنا شروع ہوجائیگا ۔فواد چودھری نے پاکستان تحریک انصاف میں دو طاقتور دھڑوں کااشارہ دیا ۔جو ایک دوسرے کو وزارتوں اور عہدوں سے ہٹانے کیلئے لڑتے رہے ۔بقول فواد چودھری کابینہ میں اختلافات اتنے بڑھے ہیں کہ بیورو کریسی حکومت پر حاوی ہوگئی ہے ۔انہوں نے اسد عمر کی چھٹی جہانگیر ترین کا کارنامہ اور اب جہانگیر ترین کی چھٹی اسد عمر کا معرکہ قراردیا ہے ،میں سمجھتاہوں کہ فواد چودھری کا یہ انٹرویو اصل میں وزیراعظم عمران خان کیخلاف ایک چارج شیٹ ہے !یہ چارج شیٹ ہے وزیراعظم کی پارٹی پر کمزور گرفت کی، اور یہ چارج شیٹ ہے حکومت کی بیڈ گورننس اور نااہلی کی ،اور شاہد یہ انٹرویو دلوایا بھی کسی خاص مقصد یا تبدیلی کی بنیاد بننے کیلئےہے؟بہرحال فواد چودھری کایہ انٹرویو کپتان کی مشکلات میں اضافہ کریگا ۔
پیارے پڑھنے والو!
نریندر مودی تیزی سے کشمیر اور کشمیریوں کی شناخت کو بھارت میں ضم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اب اس مودی نے کشمیر کا ایک ایسا ڈومیسائل متعارف کراکے غیر کشمیریوں کو دینا شروع کردیا ہے جوکہ متروک شدہ آرٹیکل 370 اور 35اے کے تحت کشمیر کے شہری نہیں ،یہ قدم شاہد کشمیریوں سے کشمیر کی نوکریاں چھیننے ،ان کی زمین اور کاروبار کو ختم کرنے کیلئے سب سے قاتل قدم ثابت ہو۔ڈومیسائل لینے کی شرائط اتنی نرم کردی گئی ہے کہ اب کوئی بھی بھارتی طالبعلم جس نے دو سال کشمیر میں تعلیم حاصل کی ہو۔کوئی بھی بھارتی فوجی ،کوئی اہلکار جو کچھ عرصہ (15 سال )کشمیر میں رہا ہو وہ کشمیر میں کاروبار ،وہاں پر زمین خریداری اور کشمیر کا باشندہ بن سکتاہے،اس سے کشمیریوں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرکے کشمیر کی سیاست پہ کنٹرول کیا جائیگا، ،حیران کن اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے سفارتی محاذ اور میڈیا پر اس کیخلاف اس طرح کا کوئی “پرائم ٹائم”جواب نہیں دیا گیا جو دیاجانا چاہیے تھا میرا یہ گمان ہے کہ لداخ میں چینی افواج کی MOVE کے بعد CPEC اور کشمیر اب لازم وملزوم ہوچکے ہیں اگر چین ڈونلڈ ٹرمپ کو Dis engage کرنے میں کامیاب رہا تو جلد کشمیر پاکستان کا حصہ ہوگا ۔یا محصورین اور مظلوم مگر بہادر کشمیری مائیں بہنیں اور بھائی آزادی کا سورج دیکھ سکیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں