کس کے ہاتھ پہ لہو تلاش کروں ،سارے شہرنے پہن رکھے ہیں دستانے تحریر۔محموداحمد عباسی:

روزمرہ حادثات و واقعات ہماری زندگی کی تلخ حقیقت ہیں،جن کا نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں سامناکرنا پڑتا ہے،لیکن بعض سانحات اپنے پیچھے انمٹ نقوش چھوڑجاتے ہیں،جن کوفراموش کرناممکن نہیں ہوتا،گذشتہ جمعرات کولورہ کی تاریخ کا ایک بڑا حادثہ سیری گاؤں کے مقام پر پیش آیا،بدقسمت جیپ زائرین کوگھنیاں گھوڑ زیارت سے واپس لیکر آرہی تھی کہ سیری کے خطرناک ترین موڑسے ڈرائیورسے بے قابوہوکر کھائی میں جاگری،سیری کے نوجوانوں نے بڑی ہمت اوردلیری کامظاہرہ کرتے ہوئے جیپ کوسیدھا کیا،زخمیوں کوباہر نکالااور فورالورہ روانہ کیا،راستے میں اورہسپتال پہنچ کرسات افراد جاں کی بازی ہارگئے،جن میں اکثریت خواتین اورمعصوم بچوں کی تھی،نوزخمیوں میں سے بعض کو تشویشناک حالت میں راولپنڈی کے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا
بلاشبہ حادثات میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں،اس حادثہ میں بھی بلاشبہ ڈرائیورکی غفلت،لاپرواہی یا گاڑی کے کوئی مکینکل فالٹ کے علاوہ چندبڑی وجوہات ایسی ہیں جن کو اگرہم یا ہمارے ارباب اختیارسامنے رکھ کراپنا محاسبہ کریں توشاہدہم آئندہ کسی بڑے حادثے سے بچ سکیں،سابقہ صوبائی حکومت کے چھ سالہ پرانے زیرالتواء بلیک ٹاپ منصوبے کی تکمیل کے ابھی بھی کئی مراحل باقی ہیں لیکن ایک عرصہ سے محروم عوام نے تمام ترنقائص کے باوجود اس منصوبے کو غنیمت جانتے ہوئے قبول کرلیا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیری ٹو نڑہوتر بلیک ٹاپ منصوبے میں حادثہ والی جگہ پر روڈ انجنیئرڈفالٹ ہے،اس خونی موڑ سے اوپر تقریبا اسی ڈگری کی چڑھائی ہے،بلیک ٹاپ ہونے کے باوجودبھی لوڈ گاڑیوں یا چھوٹی کاروں میں بھی چارافرادکوبٹھاکرچڑھناانتہائی مشکل اورخطرناک ہے،اسی طرح واپسی پربھی اترائی اورپھر یکدم موڑپر گاڑی کنٹرول کرنا ہرڈرائیورکے بس کی بات نہیں اورپھرنئے ڈرائیورسے حادثات کا امکان مزیدبڑھ جاتا ہے،حکام ازسرنو سروے کرکے چڑھائی کوختم نہیں کرتے توایسے حادثات وواقعات کوروکنا ممکن نہیں ہوسکے گا۔
حادثے کی دوسری بڑی وجہ اس موڑپر حفاظتی دیوارکا نہ ہونا ہے،اس خطرناک ترین موڑپر روڈ کے بلیک ٹاپ ہونے سے پہلے دیوار کوتعمیر کیا جانا چاہیے تھا لیکن مقامی افراد کے بار بار مطالبے کے باوجودکوئی شنوائی نہیں ہوسکی اور آخرکارانجام سات قیمتی جانوں کے قربان ہونے پر ہوا،اگردیوارہوتی تویقینناگاڑی نیچے کھائی میں نہ گرتی اوریہ بڑاحادثہ رونما نہ ہوتا،لیکن اب بھی مزیدحادثات سے بچنے کیلئے فوری طورپر حفاظتی دیوارکوتعمیرکرناہوگا۔
اموات کی تیسری بڑی وجہ سیری،نڑہوتراورنورپورسمیت کئی علاقوں کالورہ شہر سے براہ راست زمینی رابطہ (پل)نہ ہونا بھی ہے،عینی شاہدین کے مطابق حادثے کے بعدتمام افرادکوزندہ تھے لیکن زخمیوں کوبراستہ مالمولہ لورہ پہنچاتے پہنچاتے گھنٹہ سے زائد وقت لگ گیا،اور پانچ زخمی راستے میں دم توڑ گئے،جوکہ ہمارے لئے بہت بڑا المیہ ہے،اگرسیری گاؤں کا لورہ سے پل کے ذریعے براہ راست رابطہ ہوتا تو یقینا مریض ہسپتال بروقت پہنچ سکتے تھے اوران کی زندگی بچ سکتی تھی،سالہا سال مطالبے کے بعدکچھ گاؤں جن میں گورینی،نگری ٹوٹیال،گڑھی راہی اور پیسرکوتوپل کی سہولت میسر آگئی لیکن نڑہوتر،سیری،نورپورسمیت کئی گاؤں آج بھی اس سہولت سے محروم ہیں،یہاں کے لوگوں اور لورہ کے لوگوں کے معیارزندگی میں زمین اور آسمان کافرق ہے،یہ لوگ اس ترقی یافتہ دور میں بھی آئے روزاپنے مریضوں کوہسپتال پہنچاتے پہنچاتے راستے میں ہی کھودینے کواپنی تقدیر سمجھ کرخاموش ہوجاتے ہیں،اشیائے خوردونوش آج بھی سروں پراٹھاکرلانے پر مجبور ہیں،والدین کابچوں کو لورہ میں اچھی تعلیم دلوانے کا خواب بھی ادھورا سپنا بن کر رہ گیاا ور سب سے بڑی تذلیل کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا ہے جب خواتین کو پل نہ ہونے پر پورے علاقے کا طواف کرکے لورہ لانا پڑتا ہے،منتخب نمائندوں سے اپیل ہیکہ ندی ہروکے اس پار رہنے والوں کو بھی انسان سمجھ کران کے مسائل کے حل کیلئے عملی اقدامات کریں اور بعض ناگزیر پلوں کیلئے ہنگامی بنیادوں پر فنڈز مہیا کریں۔
اموات کی چوتھی بڑی وجہ سرکل لورہ کے واحدڈی ٹائپ ہسپتال کی حالت ذار ہے،کروڑوں روپے کی لاگت سے تیارکردہ ہسپتال درجن بھر مریضوں کا بوجھ بھی برداشت نہ کرسکا،چند کے علاوہ باقی سب کو الاعظم ہسپتال ریفرکیاگیا توان کی جان بچ سکی ورنہ جس ہسپتال میں روئی تک میسر نہ ہو وہاں سے مریض کے زندی بچنے کا کوئی امکان نہیں، سرکل لورہ کے اس بڑے ہسپتال کو لاوارث دیکھ کر تبدیلی سرکار کے صحت کے حوالے سے بلندوبانگ دعوؤں کی قلعی ایک بارپھرکھل گئی،ہسپتال میں موجودواحد ڈاکٹراورپیرامیڈیکل سٹاف نے بڑی جانفشانی سے فورا مریضوں کو ریفر کیا،نعشیں ورثاء کے حوالے کیں اورپھرسے میٹھی نیند سوگئے،ہمارے سیاسی نمائندے اگرکچھ نہیں کرسکتے توکم ازکم محکمہ صحت کے حکام خود ہی نوٹس لیکراپنی آنکھیں کھول لیں اور لورہ کے عوام کو موت کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے بجائے ہسپتال کی حالت زار کوبہتر بنانے کیلئے عملی اقدامات کرنا ہونگے۔
لورہ پولیس نے بھی جائے حادثہ پرجانے کی بجائے ہسپتال میں بڑی پھرتی کامظاہرہ کیا،دن بھرمحنت کرکے زخمیوں اورجاں بحق افراد کوہسپتال پہنچانے والے افرادکوشیر جوانوں کی طرف سے اوئے کلچرکاسامنا کرنا پڑا،اپنے پیاروں کی تلاش میں سرکرداں لواحقین کے ساتھ بھی ہتک آمیز رویہ اپنا یا گیا۔
آخرمیں میں یہ کہوں گا کہ ہر حادثہ ہمیں ایک بڑے حادثے سے بچانے کا موقع فراہم کرتا ہے،حادثات وواقعات سے سبق سیکھنا ہوگا، غلطیوں،کوتاہیوں اور خامیوں پر قابوپاکر ہی ہم آئندہ کیلئے خود کوکسی بھی بڑے سانحے سے بچاسکتے ہیں،اگرہم نے اس سانحہ سیری سے سبق نہ سیکھااور اپنی خامیوں پر قابو پانے کیلئے عملی جدوجہداوراقدامات نہ کئے توآئے روز حادثات وواقعات ہی ہمارا مقدرہی رہینگے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

2 تبصرے “کس کے ہاتھ پہ لہو تلاش کروں ،سارے شہرنے پہن رکھے ہیں دستانے تحریر۔محموداحمد عباسی:

  1. iss main kui shak nai k voice of lora nay masail ke nashan dehi aur elaqay kay behtar tashakhas ko ujager karnay aur logon ko awainess denay k leay bohat aham role ada kia h ay

  2. بس اگر کچھ نہ کر سکے تو بےچارے مسکین دل کا روگ ڈی ٹائپ ہسپتال لورا والے۔
    ڈی ٹائپ ہسپتال کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مشکل گھڑی میں بھی سوکن ہی بنی رہی۔
    دو رسیاں کھمبوں سے باندھ کر اوپر ایک بینر چپکا کر کے کوروناوائرس کے خلاف عظیم کارنامہ سر انجام دیا اور مریضوں کو ڈرا ڈرا کر ڈی ٹائپ ہسپتال سے ہی دور رکھا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

Leave a Reply to Ajmal Abbasi Cancel reply