کورونا کے “وجود اور لاوجود” کی کشمکش کے 100 دنوں میں تحصیل لورا کی عوام نے “جو جسکو جدھر اور جیسے”ذہن میں آیا اپنے تئیں “خلوص نیت” سے ایک دفاعی نظام رائج کرنے کی بظاہر ایک کامیاب کوشش کی لیکن یقین کی حد تک میرا یہ ماننا ہے کہ
تحصیل لورا میں کہیں نہ کہیں کوئی ولی لوگ بستے ہیں جن کی دعاؤں ریاضتوں یا عبادتوں کی بدولت ہم ایک مرتبہ پھر کسی بڑی آفت یا مصیبت سے بچ جانے میں کامیاب ہو گئے ورنہ اجتماعی حالات و کردار پر تبصرہ زخموں پر مزید نمک پاشی کے مترادف ہوگا۔کورونا وائرس کے 💯 دنوں نے تحصیل لورا کو بھی دن کو تارے دکھا دیے تھے لیکن ہار نہ ماننے والے ہمارے لوگوں نے سچ میں ہار نہیں مانی اور کورونا کو “اپنے سے دور رہنے پر مجبور” خود ہی کر دیا۔
تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن لورا ملک فراست اعوان اور انکی ٹیم نے کمال بہادری اور لگن سے دشوار گزار پہاڑی علاقوں نامساعد حالات کے باوجود ناممکن کو ممکن بنایا۔اگر کبھی تحصیل لورا کی جمہور نے بے وفائی نہ کی اور احساس احساں مندی دکھایا تو اپنے محسنوں کو ضرور “عزت سے یاد رکھنا ہی کافی ہو گا” ورنہ ان کی “زیادہ خیرخواہی کی بلکل بھی ضرورت نہیں۔
ڈاکٹر اظہر عباسی نے تحصیل لورا میں کورونا وائرس کے خلاف عظیم کردار ادا کیا ہے۔ وہ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔
مختلف ویلفیئر تنظیموں نے اپنی بساط کے مطابق لوگوں تک پہنچنے کی بھرپور کوشش کی۔
جناح ویلفیئر فاؤنڈیشن نے قائدانہ کردار ادا کیا۔
الخدمت فاؤنڈیشن تو بین الاقوامی معیار کا کام کرنے میں ماہر ہے اور منظم طریقے سے پوری تحصیل میں عملی اقدامات کیے۔
ہمکار، ماوا،اور دیگر تنظیمیں اور انکی کاوشوں کو بھی انتہائی قابلِ ستائش ہیں۔
غرض یہ کہ تمام سیاسی و سماجی تنظیموں کیساتھ ساتھ تحصیل لورا کے صاحب ثروت افراد (نام نہ لینا مجبوری ہے لیکن معلوم سب کو ہے)نے اپنا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی.
بس اگر کچھ نہ کر سکے تو بےچارے مسکین دل کا روگ ڈی ٹائپ ہسپتال لورا والے۔
ڈی ٹائپ ہسپتال کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مشکل گھڑی میں بھی سوکن ہی بنی رہی۔
دو رسیاں کھمبوں سے باندھ کر اوپر ایک بینر چپکا کر کے کوروناوائرس کے خلاف عظیم کارنامہ سر انجام دیا اور مریضوں کو ڈرا ڈرا کر ڈی ٹائپ ہسپتال سے ہی دور رکھا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
ڈی ٹائپ ہسپتال لورا کسی سکول کی پرائمری کلاس میں آخری بنچ پر بیٹھے بچوں کی مثال بنی رہی۔
وائس آف لورا ہزارہ نے ہنگامی حالات میں تمام مشکلات کے باوجود علاقے میں ہر طرح کی امدادی سرگرمیوں کی تصویر کشی کی اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ایک موقع پر تو وائس آف لورا تو لوگوں کی امید کی آخری کرن بن چکا تھا۔
گستاخی معاف اور دل پر نہیں لینا کیوں کہ
ہم تعریف بھی کر دیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ کچھ بھی نہیں کرتے تو چرچا نہیں ہوتا….
[15:01, 7/6/2020] Asghar Ch:

بس اگر کچھ نہ کر سکے تو بےچارے مسکین دل کا روگ ڈی ٹائپ ہسپتال لورا والے۔
ڈی ٹائپ ہسپتال کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مشکل گھڑی میں بھی سوکن ہی بنی رہی۔
دو رسیاں کھمبوں سے باندھ کر اوپر ایک بینر چپکا کر کے کوروناوائرس کے خلاف عظیم کارنامہ سر انجام دیا اور مریضوں کو ڈرا ڈرا کر ڈی ٹائپ ہسپتال سے ہی دور رکھا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔