ایک وقت تھا جب تحصیل لورہ کے بیشتر گاؤں روڈ، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سہولتوں سے تو محروم تھے لیکن اطمینان اس قدر تھا جیسے زندگی کی ہر سہولت میسر ہو۔ اس وقت کائنات کی سب سے خوبصورت چیز جو میسر تھی وہ تھی ایک دوسرے سے محبت، کوئی غیر نہیں تھا سب اپنے تھے۔نانیال کے گاؤں والے سب مامے، ماسیاں، نانے نانیاں ہوا کرتی تھیں اور ددیال کی طرف سے سارے چاچے چاچیاں، پھوپھیاں دادے دادیاں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن جب ہمیں نیا شعور ملا تو معلوم پڑا کہ وہ تو ہمارے چاچے مامے نہ تھے بلکہ دوسری برادریوں کے لوگ تھے۔
وہ ایسا وقت تھا جب گھروں کی چاردیواریں نہیں ہوتی تھیں لیکن پھر بھی پردہ ہوتا تھا، دروازوں میں تالے نہیں ہوتے تھے لیکن بھروسہ ہوتا تھا۔ دستخط اور انگوٹھا لگانے کا رواج نہیں تھا صرف زبان ہی قانون ہوتی تھی۔ گاؤں میں ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے دکھ سکھ، غم اور خوشی میں برابر کے شریک ہوا کرتے تھے۔ لیکن جوں جوں ہم جدت پسند ہوئے مدد کا جذبہ ختم ہوتا چلا گیا اور انسان کے بجائے دولت کی عزت ہونے لگی، بس تعمیرات اور مختلف دنیاوی معاملات میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی خواہش نے ہمارے دلوں کو زنگ آلود کردیا۔
اس وقت اگر کسی ایک کا کام ہوتا تو سارے ملکر کرتے تھے مثلاً جن کے پاس بیل ہوتے وہ خود آکر دوسروں کی زمین کاشت کرنا شروع کر دیتے۔ گھاس کٹائی کے لیے گھر والوں کو دعوت دینے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی بلکہ گھاس کاٹنے والے خود پیغام بھیجتے تھے کہ ہم فلاں دن آ رہے ہیں۔ گھاس کٹائی پر ڈھول بجاتے اور اپنی پوری طاقت لگا دیتے جیسے انہیں کوئی انعام ملنے والا ہو۔ مکئی کی کوٹائی اور دانے دانے کو خود اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے اسی طرح گندم کی گوائی پر تپتی دھوپ میں بیلوں کے ساتھ ایسے چکر کاٹتے جیسے کوئی سزا بھگت رہے ہوں۔ اگر کوئی ایک فوت ہو جاتا یا جاتی تو دھاڑیں مار مار کر ایسے روتے کہ پہچان ہی نہیں ہوتی کہ کس کا کون مرا ہے۔ دوسرے کے بچوں کی خوشی ایسے مناتے جیسے انکی اپنی اولاد ہو۔ جب کسی کی شادی ہوتی تو دولہے کو تو مہندی لگی ہی ہوتی تھی باقی گھر والے بھی جیسے مہندی لگائے ہوئے ہوں کیونکہ باقی لوگ خود آکر کام کرنا شروع کر دیتے۔ اس وقت کے لوگ اگر کسی سے شادی میں دوست بنتے تھے تو اسے ایسے نبھاتے جیسے سسی نے کچے گڑھے پر دریا میں چھلانگ لگا کر نبھائی۔
جب کوئی گھر بناتا تو جنگل سے کئی من وزنی درخت کاٹے جاتے ان میں سے کڑیاں نکالی جاتی جو بطور بیم استعمال ہوتیں لکڑی کے بالے جو چھت میں استعمال ہوتے یہ سب لکڑیاں دشوار ترین راستوں سے اپنے کندھوں پر اٹھا کر مطلوبہ جگہ پہنچاتے پھر کئی ٹن مٹی چھت پر ڈالتے اور شام کو گھی شکر کے مزے لوٹ کر گھروں کو لوٹ جاتے۔ عورتیں گھروں میں ملکر ان کے کھانے کا انتظام کرتیں جس کا گھر تعمیر ہوتا اسکے محلے سے عورتیں اپنے اپنے گھر سے دیسی گھی بھی لے آتیں جو لکڑیاں لانے والوں کی تواضع کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ فرش پر عورتیں سیل (بیٹری سیل) سے نکلنے والے کالے سکے سے ایسے پھول بناتی تھی جو آجکل کی ماربل سے زیادہ خوبصورت لگتے تھے اور یوں ایک خوبصورت اور رہائش کیلئے بہترین مکان انتہائی کفایت میں تیار ہوجاتا تھا جو سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں تھنڈا ہوتا تھا جبکہ آج کل کے یہ پختہ مکان گرمیوں میں انتہائی گرم اور سردیوں میں ناقابل رہائش ہوجاتے ہیں۔ موجودہ دور میں گھر تو پکے اور بڑے بڑے بن رہے ہیں لیکن پھر بھی ان میں وہ سکون نہیں ہے۔ وہ زمینیں جو ایک دوسرے کو قریب کرتی تھیں کسان بیلوں کے ساتھ ہل کے زریعہ جن کا پیٹ چیر کر غلہ اگاتا تھا جس کی خوشبو سے لطف لیا جاتا تھا اب نفرت کی بنیاد بن چکی ہیں اور یہ نفرتیں ہر دہلیز پر پہنچ چکی ہیں۔
وہ ایسا وقت تھا جب وقت کی قدر تھی, انسان کی قدر تھی, محبت کی قدر تھی, وعدے اور قسم کی قدر تھی۔ وہ وقت ہی اصل وقت ہوا کرتا تھا اب تو ہم اس عہد سے نکل چکے ہیں۔ گاؤں میں ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے دکھ سکھ غم اور خوشی میں برابر کے شریک ہوا کرتے تھے ایک ہی پانی کے کنوئیں سے پانی پیا کرتے تھے اور ایک ہی کنوئیں پر سب کے مویشی پانی پیا کرتے تھے۔ برتن مٹی کے ہوتے تھے اور دل شیشے کی طرح صاف جس میں کوئی بال آ جائے تو فوراً دیکھا جا سکتا تھا اسی طرح ناراضگی اور خوشی سانجھی ہوا کرتی تھی کوئی دشمنی اورسازش نہیں تھی, مکان کچے تھے لیکن حوصلے اور اتفاق آج کے پتھروں سے زیادہ پکے ہوا کرتے تھے۔ کپڑے سادہ ہوا کرتے تھے لیکن ایک دوسرے سے بغض و حسد اور ریا کاری کا گمان تک نہ تھا , سب ایک خاندان تھے اور وہ خاندان محبت پہ یقین رکھتا تھا اور محبت ہی
