عیدالاضحیٰ کی آمد آمد ہے اور آج کل سب سے زیادہ مشہور سوال جو ہر چھوٹے بڑے، جوان بوڑھے، عورتوں اور مردوں کی زبانوں پر ہے وہ ہے “بھائی! کتنے کا لیا ہے؟”۔ بظاہر تو یہ ایک مزاحیہ بات لگتی ہے اور اس کو عام طور پر عادتاً بھی کیا جاتا ہے لیکن در حقیقت جہاں قربانی کے جانور آ جاتے ہیں وہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ بھی کرتے ہیں کہ کس کا جانور زیادہ اچھا اور قیمتی ہے۔ جو لوگ مہنگے جانور خرید کر لاتے ہیں وہ بڑ ے فخر سے اپنے جانوروں کی نمائش کرتے ہیں، جبکہ کمزور جانوروں کے مالک ان کی قیمت زیادہ بتا کر اپنا بھرم رکھتے ہیں۔ غرض مقابلہ بازی کی اک فضا ہر جگہ طاری ہوجاتی ہے۔ جو لوگ قربانی کی استطاعت نہیں رکھتےان کا غم صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس مقابلے سے کیوں باہر ہیں۔
ارے بھائی! جب قربانی الله کے لیے کرنی ہے اور اس میں مقصود صرف اسی کی رضاء کا حصول ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ جانور لاکھ کا ہو یا دس لاکھ کا؟ جس کی رضاء مقصود ہے اس نے تو واضح الفاظ میں قبولیت کا معیار بتا دیا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں قربانی کے جانوروں کے متعلق ارشاد ہوا ہے کہ ’’اللہ کو تمھاری ان قربانیوں کا گوشت یا خون کچھ بھی نہیں پہنچتا، بلکہ صرف تمھارا تقویٰ پہنچے گا‘‘ (الحج37:22) ۔ تو اب چاہے جانور دس ہزار کا ہو یا دس لاکھ کا قبولیت کا معیار تو قربانی کرنے والے کی نیت پر ہے نہ کہ کسی کم قیمت جانور پر۔ ہمارا کوئی تجزیہ بنتا ہے کہ “اتنا کمزور کیوں لے آئے؟ قربانی کرنی تھی تو کچھ اچھا جانور لاتے” اور نہ لاکھوں کے جانور دیکھ کر ہم اس کے عندالله مقبولیت کی دلیل دے سکتے ہیں۔
اگر واقعی آپ خدا کے راستے میں اپنے پسندیدہ مال کی قربانی میں اخلاصِ نیت کے ساتھ خوب خرچ کرنا چاہتے ہیں تو دس لاکھ کے ایک جانور کے بجائے لاکھ لاکھ کے دس جانور قربان کردیں، یقیناً زیادہ ثواب اور کم دکھلاوے میں معین ہوگا۔ پھر شریعت بھی اس مال کے خرچ کو زیادہ پسند کرتی ہے جو أنفع للفقراء ہو۔ آپ کا لاکھوں کا وزنی ترین جانور بھی گلے پر چُھری پھیرے جانے کے بعد دنیا کی نظر میں بے معنی ہو جائے گا۔ اگر اس میں نیت صحیح تھی تو باعث اجر، وگرنہ صرف گوشت سے افادہ کے سواء آپ کے لیے وہ کوئی اجر ذخیرہ نہیں کر سکتا۔
عید کو عید الاضحیٰ (قربانی کی عید) ہی رہنے دیں، جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے بیابان میں اپنے جگر کے ٹکڑے کو قربانی کے لیے حاضر کیا تھا۔ جانوروں کی تشہیر کر کے اور باقاعدہ ٹینٹ لگا کر نمائش کے لیے ان کو پیش کرنا اور کیٹ واک کروا کر لوگوں سے داد اور تعریفیں سمٹ کرنا اور پھر اس کوشش میں رہنا کہ محلے اور رشتہ داروں میں سب سے بڑا اور مہنگا جانور ہمارا ہو۔ یہ عید کے معنی کو بگاڑنا ہے۔ اس سوچ کے ساتھ عید “عید المقابلہ” معلوم ہوتی ہےنہ کہ عیدِ قرباں۔
دوسری بات یہ دیکھی جاتی ہے کہ قربانی کرنے والے یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم اگر قربانی کر رہے ہیں تو یہ ہمارے تمام گناہوں کا کفارہ ہے، اور جانور کی خدمت ہی تمام فرائض اور اجتناب عن المحرمات کی طرف سے کافی۔ چنانچہ ہر گلی کوچہ میں ایک گائے کے قیام کی خاطر دس دس جانوروں کے حساب سے جگہوں پر قبضہ کر لیا جاتا ہے، آنے جانے والوں کے لیے جو بے پناہ مشکلات اور ان کے لیے تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ اس پر مزید ستم ہم یہ کرتے ہیں کہ قربانی کا گوشت تو اپنے فرج میں رکھ دیتے ہیں لیکن قربانی کے جانوروں کی اوجڑی اور دیگر آلائشیں گلیوں اور سڑکوں کے کنارے پھینک دیتے ہیں جن سے بدبو بھی پھیلتی ہے اور ماحول بھی آلودہ ہوتا ہے۔ چنانچہ قربانی کے دنوں میں اس کی حکمت و مصلحت کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے گھر کی طرح اپنے علاقے کو صاف رکھنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ جس کی خلاف ورزی کم از کم ایک دینی تہوار کے موقع پر اور با لخصوص ایک عبادت کو انجام دیتے ہوئے بالکل نہیں ہونی چاہیے۔
خدا کے لیے کچھ خیال کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی اتنی مالی قربانی کسی کے لیے ایذاء رسانی کا سبب بن کر اکارت نہ چلی۔ الله تعالیٰ ہم سب کی قربانیوں میں اخلاص نصیب فرمائے، اور سب کی قربانیاں قبول و منظور فرمائے، آمین!