*کوٹلہ گاؤں قدیم تاریخ، تہذیب و تمدن*
(تحریروتحقیق محمد امجد چوہدری)
کوٹلہ دو لفظوں کوٹ اور ٹلہ سے مل کر بنا ہے جن کے معنی ہیں قلعہ نما پہاڑی جگہ ۔ کوٹ پہاڑی اصطلاح میں قلعہ کو کہتے ہیں ٹلہ گکھڑوں کی زبان میں پہاڑی کو کہتے ہیں جس کے لغوی معنی ڈیرہ یا رہائش اختیار کرنا ہے ۔کوٹلہ کے ہم نام پاکستان میں کئ قصبے اور دیہات آباد ہیں ۔ جن میں کوٹلہ تولے خان ملتان ،کوٹلہ ارب علی خان پنجاب، کوٹلہ کاہلواں ننکانہ صاجب، کوٹلہ مظفرآباد، کوٹلہ پشاور، کوٹلہ گجرات، کوٹلہ چکوال شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انڈیا کے ایک شہر کا نام بھی فیروز شاہ کوٹلہ ہے ۔ اس گاوں کی وجہ تسمیہ کے بارے میں قرین از قیاس یہی ہے کہ اس کے اولین آباد کار کوٹلہ گجرات سے آئے ہیں ۔انہوں نے اسی مناسبت سے اس بستی کا نام بھی اپنے آبائ مسکن کے نام پر رکھا ہو گا ۔

یہ موضع اسلام آباد سے 16 کلومیٹر کے فاصلے پر مارگلہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان ایک خوبصورت وادی میں واقع ہے ۔ اس کی سطح سمندر سے بلندی 3200 فٹ ہے ۔ اس کے گردوپیش کا کچھ علاقہ پہاڑی ڈھلوانوں پر مشتمل ہے اور درمیانی علاقہ کچھ ہموار ہے ۔

کوٹلہ کا حدبست نمبر284 رقبہ 1093 ایکڑ آبادی 3200 مکانات کی تعدا312 ہے ۔ اس کا حلقہ پٹوار مسلم آباد اور حلقہ قانون گو خانپور ہے ووٹرز کی تعداد 1600 ہے۔ کوٹلہ ویلیج کونسل پکشاہی یونین کونسل مسلم آباد تھانہ مکھنیال تحصیل خانپور اور ضلع ہری پور کی حدود میں واقع ہے ۔ بندوبست اراضی 1871-72 کے مطابق کوٹلہ ویلیج سکھوں نے راجہ فیروز گکھڑ کو بطور جاگیر عطا کیا ۔مقامی لوگوں کو مالکانہ حقوق سے محروم کر دیا گیا ۔ اس وقت اس کا لینڈ آف ریوینو 162 تھا ۔ 1960 کے بعد لوگوں نے اپنی مقبوضہ زمینوں کی دوبارہ قیمت ادا کر کے گکھڑوں سے مالکانہ حقوق حاصل کیے ۔

یہ گاؤں اسلام آباد اور ہری پور میں حدِ فاصل قائم کرتا ہے ۔اس موضع کے شمال کی سمت پہاڑی کے دوسری طرف پکشاہی، سہر ،نروٹہ، مستہ اور مسلم آباد کے گاوں واقع ہیں. مغرب کی سمت گوکینہ اور تلہاڑ واقع ہیں۔ جنوب میں ملواڑ اور پیرسوہاوہ مشرق میں چرانی کی پہاڑی کے دوسری طرف نڑیاس اور شاہدرہ کے دیہات واقع ہیں ۔ کوٹلہ اس علاقے کا قدیم گاوں متصور ہوتا ہے ۔ قدیم دور میں یہ گاوں نروٹہ کی داخلی تھی ۔ کوٹلہ وادی میں ندی کے دونوں کناروں پر ایک پرفضا مقام پر آباد ہے ۔ ندی کا پانی گوکینہ تلہاڑ سے گزر کر خان پور ڈیم میں جاکر شامل ہوتا ہے اس کا جھلملاتا پانی دور دراز کی پہاڑی بلندیوں سے صاف نظر آتا ہے ۔ موسم برسات میں یہ ندی پانی سے بھر جاتی ہے ۔تو اچھے خاصے نالے کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ آب پانی اور پینے کے پانی کا انحصار ذیادہ تر قدرتی چشموں پر ہے۔ جو ندی کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سال بھر رواں رہتے ہیں ۔ گاوں میں اکیس ٹھنڈے اور صاف پانی کے چشمے ہیں.

یہ موضع 28 چھوٹی چھوٹی ڈھوکوں (محلوں ) پر مشتمل ہے۔ جن میں جاوہ، کھراوہ، محلہ چوہدریاں، ڈھیری، چھنی، چڑی، گیاڑی، چیڑاں باڑی، رواڑی ،کھوڑی، میانی، ہاڑی زمیں ،کوگڑ،ڈونگی ، ہاڑی چھاڑ، جباں ،پتراڑاں، بدراں نکہ، شیراں ڈنہ، باڑیاں، پیرسوہاوہ، موہری ،شامل ہیں ۔
گاوں میں لڑکوں کے لیے ایک پرائمری موجود ہے جس کا اجراء 28-11-1964 میں ہوا ۔ لڑکوں کے لیے مڈل سکول کا اجراء 19 مارچ 1974 میں ہوا ۔ 1976 میں 9th کلاس بھی شروع کی گئ ۔ لیکن 1977میں اسے ختم کر دیا گیا ۔ ستمبر 2005 میں مڈل اور ہائ سکول کی عمارت کا کام شروع ہوا جو 31مارچ 2011 کو تکمیل پذیر ہوا ۔ بچیوں کے لیے پرائمری سکول 1993-94 میں تعمیر کیا گیا ۔ اور 1996 میں اس کا اجراء ہوا ۔ 11 اگست 1997 کو پیرسوہاہ پوسٹ آفس برانچ کا افتتاح کیا گیا ۔ اکتوبر 1992 میں کوٹلہ کو بجلی کی سپلائ کے لیے پشاور الیکٹرک سپلائ کمپنی نے کام شروع کیا ۔ اور دسمبر 1992 میں بجلی کی سپلائ دی گئ ۔ 2005 میں گوکینہ ٹیلی فون ایکس چینج سے کوٹلہ میں ٹیلی فون کے کنیکشن دیے گئے ۔ اکتوبر 1985

میں مسلم آباد سے سول ہسپتال کوٹلہ منتقل کی گئ ۔
کوٹلہ کے ذیادہ تر لوگ معاشی طور پر خوشحال اور باروزگار ہیں لوگوں کی اکثریت وفاقی ترقیاتی ادارہ سی ڈی اے میں ملازم ہے زرعی رقبہ کم ہونے اور آبپاشی کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ زراعت سے وابستہ ہیں ۔ قابل کاشت رقبہ پر مکئ اور گندم کی فصل کاشت کی جاتی ہے ۔ یہاں پھلوں میں خوبانی ،بٹنگ ،داکھ، دڑنہ ،بیر ،ناشپاتی ،اخروٹ ، پھگواڑے با افراط پائے جاتے ہیں ۔ گاوں کے گردونواح میں سرسبز پہاڑی سلسلے ہیں جن میں چیڑھ ،پھلاہی، دریک ،بٹکہڑ، کلیاڑ،کنگڑ، ریں، سنتھا ،کاہو، سمبل کے جنگلات ہیں۔ گاوں کے تقریباً اکثر گھروں میں گائے، بھینس، بکری پالی جاتی ہیں ۔ دوددھ کے معاملے میں گاوں خود کفیل ہے ۔
*قدیم دور کا معاشرہ*
کوٹلہ گاوں میں کل پانچ مساجد ہیں ۔ قدیم دور میں صرف ایک مسجد ہوا کرتی تھی ۔ 1948 میں جب پہلی بار میرے پڑنانا چوہدری غلام محمد مرحوم نے مسجد کی تعمیر شروع کی تو بھرڑے سے بھٹی جلانے کے لیے جولاہ لاۓ گۓ جو اس فن میں ماہر تھے محلہ جڑی جنگڑ کے قریب مسلسل ایک ماہ بھٹی جلتی رہی ۔ پتھروں کو جلا کر چونا تیار کیا جاتا رہا ۔ جو اس دور میں سیمنٹ کے متبادل استعمال کیا جاتا تھا ۔ چوہدری غلام محمد مرحوم جنگل میں داروغہ تھے ۔ ان کی خصوصی دلچسپی سے مختلف شہروں سے اونٹوں پر تراشیدہ پتھر لاۓ گۓ ۔یوں گاوں کی اولین مسجد کی تعمیر مکمل ہوئ ۔ اس دور جمعہ کی نماز لوگ بری امام جا کر ادا کرتے تھے ۔ اور ہر محلے سے صرف ایک شخص ہی فرض کفایہ سمجھتے ہوۓ جمعہ کی نماز ادا کرتا تھا ۔کوٹلہ کے پہلے پیش امام مولوی رکن تھے ان کی وفات کے بعد ان کے بتھیجے مولوی فقیر محمد مسجد کے پیش امام مقرر ہوۓ۔ مولوی رکن اور مولوی فقیر محمد جولاہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ۔مولوی فقیر محمد مرحوم بہت خوش آواز تھے۔ لاوڈ سپیکر کی سہولیات نہ ہونے کے باوجود انکی آذان کی آواز پوری وادی میں گونجتی تھی ۔ علاقے کے اکلوتے مولوی ہونے کی وجہ سے رمضان میں دو جگہ کوٹلہ اور ملواڑ میں تروایح کی نماز پڑھاتے تھے ۔حالانکہ یہ شرعی طور پر جائز نہیں تھا ۔ لیکن مجبوری کے باعث یہ فعل سرابجام دینا ضروری سمجھا گیا ۔ مولوی فقیر محمد کی خدمات کے عوض انہیں فصلانہ یعنی غلہ اور آٹا دیاجاتا ۔ ان کی وفات جون 1979 میں ہوئ ۔

قدیم دور میں سکول کی سہولت موجود نہیں تھی مسجد میں مکتب سکول سے ابتدائ تعلیم حاصل کی جاتی تھی ۔ اور اکلوتے اولین مدرس بابا چوہدری گل زمان مرحوم جو میرے دادا کے چھوٹے بھائ تھے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ وہ فطری طور پر تعلیم یافتہ تھے ۔ انہوں نے باقاعدہ کسی مکتب سے تعلیم حاصل نہیں کی۔ اچانک حادثاتی طور پر ان کو بنیادی علوم قدرتی طور پر ودیعت ہوئے ۔ ایک کامل مدرس کی صفات ان میں قدرتی طور پر بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ اردو ادب کی بنیادی کتابیں اور اسلامی لٹریچر ان کے پاس موجود تھا ۔ مرحوم ایک ماہر خطاط بھی تھے ۔ انکے قلمی نسخے اور کتابیں مجھے دستیاب نہیں ہو سکیں ۔انکی وفات کے بعد اکثر کتابیں مولوی فقیر محمد مرحوم ، مولوی بوستان مرحوم اور بابا خانی زمان لے گئے ۔ باقی کتابیں اور قلمی نسخے انکے گھر والوں نے ناکارہ سمجھتے ہوئے ضائع کر دیے۔ ۔بابا چوہدری خانی زمان بھی انہی کے ہونہار شاگرد قریبی عزیز اور پڑوسی بھی تھے ۔ انہوں نے بابا گل زمان سے بخوب علمی فیض حاصل کیا ۔ پاکستان بننے سے قبل فوج میں بھرتی ہوئے ۔ مطالعے کا شوق اور عملیات میں مہارت رکھتے تھے ۔ بابا خانی زمان ڈائری اور روزنامچہ لکھنے کے عادی تھے ۔ انکی وفات کے بعد انکی ڈائری اور علمی ذخیرہ انکی اولاد کے ہاتھوں ضائع ہو گیا ۔ اگر ڈائری دستیاب ہو جاتی تو کوٹلہ کے گزرے اوقات میں اہم ترین واقعات سے اگاہی حاصل ہو جاتی ۔
گاوں کے پرانے بزرگوں نے بابا گل زمان مرحوم سے لکھنا پڑھنا س

یکھا تھا ۔ ان کے شاگردوں میں فقیرمحمد،بابا خانی زمان مرحوم حاجی محمد سلیمان ،میر اکبر عبدالحمید، مہربان وغیرہ شامل ہیں ۔ بابا گل زمان1977 ء میں فوت ہوئے تو انہی کے شاگرد مولوی بوستان مرحوم مکتب سکول کے انچارج اور مسجد کے امام بنے بعد ازاں انہیں سرکاری طور پر گاوں کا نکاح رجسٹرار بھی مقرر کر دیا گیا ۔ اس سے قبل میر اکبر کے والد صوفی قاضی بوستان عباسی نکاح رجسٹرار تھے۔انہوں نے طویل عرصہ یہ ذمہ داری خوب نبھائ ۔ قاضی مرحوم حلیم مزاج ، نرم خو اور ذندہ دل انسان تھے ۔ان کی وفات کے بعد یہ ذمہ دادی مولوی بوستان مرحوم کے حصے میں آئ ۔یوں کہیے یہ ذمہ داری صوفی بوستان سے لے کر مولوی بوستان کو تفویض کی گئ ۔(سعدی شیرازی کی حکایات گلستان و بوستان کے اثرات ہزارہ میں ان دو ناموں کی صورت میں ظاہر ہوئے تقریباً ہر گاوں میں گلستان و بوستان کے نام اکثر ملتے ہیں ) مولوی بوستان مرحوم سادہ طبیعت، عاجزی و انکساری کا پیکر تھے۔ انکی جب وفات ہوئ ۔تو ان کے اکلوتے فرزند بخشیش احمد نکاح رجسٹرار مقرر ہو ئے جو اپنی ذمہ داری بااحسن نبھا رہے ہیں ۔لیکن والد مرحوم کے ورثے کو نہیں سنبھال سکے ۔ مولوی صاحب مرحوم کی نایاب کتابوں کے نسخے اور ان کی قلمی تحریریں ان کے اکلوتے فرزند کے ہاتھوں ضائع ہو گئیں ۔ جو ایک افسوسناک امر ہے ۔
1976 میں جب سکول کا اجراء ہوا مانسہرہ کے ماسٹر غلام نبی پہلے سکول ٹیچر مقرر ہوئے ۔ تو باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا رواج عام ہوا اس سے قبل ہر بہت کم لوگ ایسے تھے جنہوں نے باقاعدہ رسمی تعلیم حاصل کی تھی ۔
۔اگر 1960 سے قبل تعلیمی صورتحال کا جائزہ لیا جائے ۔ تو اس وقت ایک ہزار میں سے بمشکل دو افراد واجبی پڑھے لکھے ملتے تھے ۔ اکثر لوگوں کی کم علمی کا یہ عالم تھا ۔ کہ وہ سو تک گنتی نہیں جانتے تھے ۔ اور اس وقت تمام لین دین بیسیوں میں طے ہوتا تھا ۔ 98 فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مویشی پالنا تھا ۔ مشینی کاشتکاری ابھی متعارف نہیں ہوئ تھی ۔ کاشتکاری کا انحصار ذیادہ تر بیلوں پر تھا ۔ ہر گھر میں بیلوں کی جوڑی رکھنا لازم سمجھا جاتا تھا ۔ لوگ اپنے ملکیتی رقبہ پر مکئ اور گندم کی فصل کاشت کرتے تھے سبزی گندم مکئ دیسی گھی کے بارے میں ہر خاندان خود کفیل تھا ۔ لوگ گندم اور مکئ برآمد بھی کرتے تھے ۔ یہاں کے لوگوں کی اہم برآمدات میں مکئ ،گھی، آملہ ،بابڑنگ ، اناردانہ اور کچنار کے علاوہ کئ مفید قسم کی جڑی بوٹیاں بھی تھیں . اسی طرح درآمدات میں ذیادہ تر کپڑا نمک تمباکو اور گڑ وغیرہ شامل تھے ۔ اس دور میں عام لوگوں کی خوراک مکئ تھی ۔ بہت کم لوگ گندم استعمال کرتے تھے ۔ تمام لوگ سیدپور اور نورپور کی منڈیوں سے وابستہ تھے ۔ اشیاء خوردونوش پیدل سفر کر کے لائ جاتی تھیں ۔

معاشرتی نظام
کوٹلہ کے عوام پرامن سماجی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں ۔ جرائم پیشہ افراد نہ ہونے کے برابر ہیں دیگر دیہات کی نسبت یہاں چوری قتل کی وارداتیں بہت کم ہوئ ہیں ۔میری یادداشت کے مطابق قتل کے پندرہ اور خودکشی کے سات واقعات ہوئے ہیں ۔ قرون اولی میں تمام برادریوں میں اچھے تعلقات اور مراسم استوار تھے جبکہ قرون وسطی میں ڈھونڈ اور گوجر قبائل میں باہمی چپقلش دیکھنے میں آئ اکا دکا لڑائ کے واقعات بھی ہوئے ۔ جبکہ موجودہ دور میں تمام برادریاں باہم شیروشکر ہیں ۔ ایک دوسرے کی شادی فوتگی میں شریک ہوتی ہیں ۔تقریباً ہر خاندان دس کنال سے ذائد ذاتی زمین کا مالک ہے گاوں کے وسط میں دوکانیں موجود ہیں جہاں بنیادی ضرورت کی تمام اشیاء آسانی سے مل جاتی ہیں ۔
لوگوں کی اوسط عمر ستر سال ہے ۔ طویل العمر افراد کی آخری نسل کے چند گنے چنے افراد باقی رہ گئے ہیں ۔ چند شخصیات نے ایک صدی سے ذائد عمر پائ جن میں سے بابا چوہدری ولی محمد ١٠۵ سال کی طویل عمر پا کر حال ہی میں فوت ہوئے ہیں .

اقوام وقبائل
کوٹلہ میں گوجر، ڈھونڈ (عباسی ) ،اعوان، مغل، دھنیال، پکھڑال، بھٹی اور جولاہ اقوام کے لوگ آباد ہیں ۔ گوجر واضع اکثریت میں ہیں ۔ گوجر گجرات سے آ کر آباد ہوئے ۔
ڈھونڈ قبیلے کے اولین آبادکاد پیر بخش اور فتح علی لورہ گورینی سے بھٹی مسلم آبادسے جولاہ نجف پور سے اور پکھڑال کوہمل گلی اور سنگریڑی سے آ کر آباد ہوئے ۔
اعوان قبیلے کے سیداخان خانپور آ کر آباد ہوئے ۔ دھنیال نجف پور اور دیسرہ سے آ کر پیرسوہاوہ میں آباد ہوئے اولین آبادکاروں میں میرعلی بابا نادر شامل تھے مستری پیشہ گھرانے کے لوگ جو اپنے آپ کو اعوان کہلواتے ہیں ۔ بگراں سے آ کر آباد ہوئے ۔منگا خان اولین آبادکار تھا ۔ اس قبیلے کے اکثر لوگوں کے ناموں کے ساتھ دین کا لاحقہ لگایا ہے جیسے نظام دین رحمت دین محمد دین وغیرہ ۔
محلے وار اگر اولین آبادکاروں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہر خاندان کی معروف شخصیات گزری ہیں. جن کی اولاد موجودہ دور میں سینکڑوں سے تجاوز کر گئ ہے ۔

*گوجر*
کوٹلہ کے گوجر ذیادہ تر چیچی گوت سے تعلق رکھتے ہیں ۔قدیم دور میں گجرات میں قحط سالی کے دوران یہ خاندان بابا عاصی گوجر، باسی گوجر ، فیروز ،تہوری، حسین ، بلاقی کوٹلہ گوجرات سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ۔ راولپنڈی میں جھنڈا چیچی کو اپنا مسکن بنایا بعدازاں فیصل مسجد کے قریب ڈھوک جیون نام کی بستی بسائ ۔ لیکن مزید چراگاہوں کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے بعد میں کوٹلہ اور مسلم آباد کو مستقل مسکن بنالیا ۔ بابا عاصی کی اولاد مسلم آباد میں اور بابا باسی کی اولاد کوٹلہ میں آباد ہوئ ۔ بابا باسی کی اولاد میں ایک بزرگ شیر عالم تھے جن کے پانچ فرزند تھے بابا مشرف ، نادر ، احمد ، سیدا ، گاماں ، مہناں ، بابا مشرف کے آگے آٹھ بیٹے ہوئے ۔ سیداحمد ، غلام محمد ، حیات محمد ، کریماں ، کرم بخش ، شیرا ، بکہ ، گل زمان انہی سے آگے نسل چلی . بابا سیداحمد مرحوم جو میرے دادا تھے ان کے پانچ فرزند ہیں چوہدری فضل احمد مرحوم چوہدری فریق مرحوم ، میرے والد منصف ، فکری زمان ، محمد مسکین ، بابا شیرے کی اولاد میں ١-مولوی بوستاں مرحوم ، ٢-فرمان ، ٣-مہربان جو جوانی میں فوت ہو گیا ۔ ۴-چوہدری محمد مرحوم جو ابتدا میں بادیہ میرا اسلام آباد میں چلے گئے ۔بعدازاں کوہ نور مل کے قریب زمین خرید کر اپنا مستقل مسکن بنایا ان کی اولاد آج بھی وہاں آباد ہے بابا اشرف ، کالا خان ، محمد اسلم ، عبدالرشید ان کے خاندان میں سے ہیں ۔
بابا حیات محمد کےچار فرزند تھے چوہدری عبدالغنی مرحوم ، بابا عبدل مرحوم ، سخی محمد مرحوم ، اور محمد رمضان ، چوہدری عبدالغنی 1930 میں حیات محمد کے ہاں متولد ہوئے ۔ علاقے کی ممتاز سماجی شخصیت تھے ۔مرحوم خوشحال اور کثیر الاولاد شخص تھے۔ چوہدری عبدالمجید ممبر ضلع کونسل یو سی مسلم آباد انہی کے فرزند ہیں ۔ چوہدری عبدالغنی 2016 میں فوت ہوۓ ۔
بابا بکہ کے اولاد میں بدل دین مرحوم ، عبدالغفور اورعبدالغفار مرحوم تھے

محلہ چڑاں باڑی ، کلسہ میں بابا غلام محمد کی اولاد کریم بخش اور کرم بخش کی اولاد آباد ہے غلام محمد جو محکمہ جنگلات میں داروغہ فاریسٹ آفیسر تھے۔ ان کا دفتر تریٹ مری میں ہوتا تھا ۔ ان کے دو بیٹے عطا محمد اورمیرے نانا مرحوم سلطان محمد تھے ۔ بابا سلطان محمد مرحوم کے پانچ فرزند ہیں ۔ جبکہ عطا محمد کی نرینہ اولاد نہیں تھی ۔ بابا مشرف کی اولاد میں سے حیات محمد مرحوم اور میرے دادامرحوم چوہدری سیداحمد ، شیرمحمد مرحوم ، اور گل زمان مرحوم کی اولاد محلہ چوہدریاں میں آباد ہے ۔ کریم بخش کی اولادمیں دوست محمد اور جان محمد تھے ۔دوست محمد کے ملک محبوب مرحوم اور جان محمد کے مطلوب اور یعقوب ہیں اور کرم بخش کی اولاد میں اکلوتے نیاز محمد تھے۔ نیاز محمد مرحوم کے خان محمد اور محمد منظور ہیں۔ کریم بخش اورکرم بخش کی اولاد محلہ چڑاں باڑی میں آباد ہے ، گامے کی اولاد میں فقیرمحمد مرحوم تھے جن کے دو بیٹے تھے۔عبدالغفارمرحوم اور شیر حسن مرحوم جو محلہ کھرنٹی میں آباد ہیں ،بابا سیدے اور بابا مہنے کی اولاد کھوڑی آباد ہوئ بابا سیدے کے بیٹے ملک حیدر کےپانچ بیٹے ہوئے ملک سخی محمد ، ملک آذاد ، دوست محمد ، محمد شفیع اور گابا اوربابا مہنے کی اولاد میں عزیز احمد مرحوم تھے ۔ عزیزاحمد اوائل عمری میں خویشگی نوشہرہ جا کرآباد ہوئے ۔ وہیں شادی کی ان کی اولادمیں سات فرزند ہیں امان اللہ خان سی ڈی اے لیبر فیڈریشن کےجنرل سیکرٹری ہیں ۔ بابا گابے کی اولاد محلہ ڈگ میں آباد ہے
نادر کی اولاد میں کرم الہی مسلم آباد میں آباد ہی جبکہ احمد لاولدرہا ۔
محلہ رواڑی میں بابا گلاب اور بابا لال خان کی اولاد آباد ہے لال خان اور گلاب خان کے والد گاماں خان تھے ۔ اس خاندان کا شجرہ پندرہ نسلوں تک مسلم آباد کے اولین آبادکار بابا عاصی گوجر سے جا کر ملتا ہے کیپٹن توقیرجاوید گوجر تک اس خاندان کا شجرہ کچھ یوں ہے ۔
عاصی گوجر بن فیروز بن تہوری بن حسین بن لطیف بن بلاقی بن صالح محمد بن محبت بن سردار بیگ بن خدا بخش بن مشرف بن حیات محمد بن گلاب خان بن محمد مہربان بن محمد جاوید بن کیپٹن توقیر جاوید ۔
محلہ چوہدریاں میں سیدا ، پیر بخش ،فضلداد عطامحمد ،غلام محمد اور بخش پانچ بھائ آباد تھے ۔
بابا سیدا کے تین بیٹے ہوۓ بابا ولی محمد مرحوم ، علی محمد اور منگا ۔ جبکہ عطا محمد کی اولاد میں خانی زمان اور محمد سفری تھے سفری جوانی میں فوت ہوگیا تھا ۔ غلام محمد کی اولاد میں صادق اور فضل داد ، محمد آذادمرحوم ہیں جبکہ بخش عرف بخشو کا بیٹا سلطان محمد واہ فیکٹری آباد ہوا ۔ پیربخش اور فضلداد محلہ میانی میں جا کر آباد ہوۓ

محلہ میانی کے گوجر بابا قائم ،پیربخش اور بابا مہندا ، بابا نادر ،بابا گاما اور فضلداد کی اولاد میں سے ہیں.قائم خان کے بیٹے بابا چوہدری مصری خان اسی محلے کی سرکردہ شخصیت تھے ۔ علی اور محمد ان کے بھائ تھے۔ بابا فرمان کے اکلوتے بیٹے گل حسن تھے ، بابا نادر کی اولاد میں بابا خان محمد مرحوم سلطان محمد مرحوم اور ماسٹر سفری صاحب کے والد غلام محمد تھے ۔ پیر بخش کے بیٹوں میں
عبدل مرحوم ، ہاشم مرحوم ، کریمداد مرحوم ،فضل الرحمن ہیں ۔۔بابا فضلداد کے بیٹے عبدالغنی مرحوم تھے
بابا مہندے کے دو بیٹے تھے اللہ داد اور میرداد ،میانی محلہ میں آج انہی کی اولاد اس محلے میں آباد ہے جبکہ کرم الہی چس کلاں نزد خانپور نکل مکانی کر گئے ۔

*ڈھونڈ (عباسی )*
ڈھونڈ قبیلے کے اولین آبادکاروں میں پیر بخش تھے۔ پیر بخش بن بیلی خان بن علی محمد خان بن مست خان گورینی لورہ کے رہنے والے تھے ۔ محلہ جباں والے کریم بخش، قادر بخش کی اولاد ہیں ۔ بغلیاں اور جوڑی میں ملک محبوب مرحوم کا خاندان قائم خان کی اولاد میں سے ہے . بابا ٹکا خان عباسی مرحوم کے والد محمد خان عباسی اور رمضان عباسی لورہ کے قریب گلی گھمبیر سے آکر آباد ہوئے ۔ محلہ ہاڑی زمیں والے پیر بخش کے بیٹے سمندر خان کی اولاد میں سے ہیں ۔ سمندر خان کے تین بیٹے ہوۓ فقیر محمد عباسی ، محمد شفیع مرحوم ، حکم خان مرحوم ۔ فقیر محمد عباسی کے پانچ اور محمد شفیع کے چار بیٹے ہیں ۔حکم خان کی اولاد نہیں تھی ۔ محلہ ڈوہنگی اور تراٹی میں بابا حسین کی اولاد آباد ہے بابا حسین کے پانچ بیٹے ہیں گل زمان ، جہاندادمرحوم اور عبدل انہی کی اولاد میں سے ہیں۔ محلہ بدراں نکہ ، ہاڑی چھاڑ اور جباں میں دوست محمد کی اولاد آباد ہے دوست محمد کے چھ بیٹے تھے ولی محمد، سلطان، اکبر ، اقبال ،اشرم، محبوب ، ولی محمد کی اولاد میں ذکری مرحوم اور فکری زمان ہیں ۔
محلہ ڈھیری کے آبادکار فتح محمد تھے جن کے بیٹے غلام محمد تھے غلام محمد کے دو فرزند محمداقبال اور محمد خان تھے حاجی محمد سلیمان بابا محمد خان کی اولاد میں سے ہیں۔
محلہ شیراں ڈنہ ، سرہ اور بنی کے ڈھونڈ قبیلے کے گھرانے بابا فقیر کی اولاد ہیں جو ابتدا میں سنگڑہ میں آباد ہوئے۔ بعدازاں ڈھوک سرہ میں قیام پذیر ہوئے۔ 1960 میں سرہ کی زمین سی ڈی اے نے ایکوائر کی تو بابا فقیر کے بیٹے محمد سلطان شیراں ڈنہ آباد ہوئے ۔ بابا فقیر کے تین بیٹے تھے سلطان ، بہارد اور شیرزمان ۔ بہارد کی اولاد محلہ بنی میں ابتدا ہے جبکہ شیرزمان کی اولاد ڈھوک سرہ میں آباد ہے ۔ ابتدا میں ان کے دادا گل شیر دناہ سے آ کر بانٹھ میں آباد ہوئے تھے ۔ ۔
*دھنیال*
پیرسوہاوہ کے دھنیال دیسرہ آکر آباد ہوئے ۔ جبکہ اس خاندان کے آباواجداد کا ابتدائ آبائ مسکن کرپا چراہ تھا ۔کرپا چراہ سےپانچ بھائ پہلے پہل دیسرہ آئےجن میں نورو، سکندر ، میرعلی اور پھتا شامل ہیں پانچواں بھائ جس کا نام معلوم نہیں ہو سکا یہاں سے پھلکوٹ شنکیاری چلا گیا جہاں اس کی اولاد آج بھی آباد ہے قدیم دور یہ خاندان ایک بار اونٹوں پر سفر کر کے دوبارہ اس علاقے میں آیا ۔ لیکن دوبارہ ان خاندانوں کا آپس میں رابطہ نہیں ہو سکا ۔ بابا سکندر کی اولاد میں سے بابا نادر تھے جن کی اولاد سےبابا فضلداد ہوِِئے ان کی اولاد آج پیرسوہاوہ میں آباد ہے ۔ قدیم دور میں راجہ صادق مرحوم اس قبیلے کی سرکردہ شخصیت تھے ۔ جن کی اولاد میں راجہ اختر زمان سابق جنرل کونسلر ، فضل الرحمن مرحوم اور راجہ عبدالحفیظ ہیں بابا فضل داد کی اولاد میں حاجی خان محمد ، نیاز محمد مرحوم اور محمد نذیر مرحوم ہیں ۔ میر علی کی اولاد محلہ باڑیاں میں آباد ہے ۔جن کی اولاد میں بابا گل زمان مرحوم ، محمد آذادمرحوم ، بابا سخی محمد مرحوم تھے ۔ آج انہی کی اولاد محلہ باڑیاں میں آباد ہے اسی خاندان سے صوبیدار نزاکت شہید نے فوج میں ڈیوٹی کے دوران میر علی میران شاہ میں شہادت پائ ۔ جبکہ نورو محلہ بنی کےمحمد نواز کے پردادا تھے اس خاندان سے پھتا یا فتح خان یہاں سے نجف پور چلے گئے۔ جن کی آج بھی وہاں آباد ہے سردارمحمد نصیر کا خاندان انہی کی اولاد میں سے ہے
*اعوان*
اعوان قبیلے منشی کماں پہلے پہل خانپور سے بھرڑے مسلم آباد آکر آباد ہوئے بعد ازاں کوٹلہ میں محلہ مہری سہری کو اپنا مسکن بنایا ۔ ان کے پانچ بیٹے تھے نواب خان، شرف علی ، عطامحمد عرف تایا جو منڈیالہ بری امام جا کر آباد ہوئے ، قادر بخش جن کی اولاد محلہ کوگڑ میں آباد ہے اور کریم بخش جن کی اولاد عبدالرحیم اور انکا خاندان بری امام میں آباد ہے نواب خان کی اولاد میں سے غلام محمد اور بابا سیدا تھے ۔ جو محلہ چھنی میں آباد ہوئے ۔ بابا سیدے کی اولاد میں سے محمد اشرف مرحوم اور کالا خان ہیں جن کی اولاد آج محلہ چھنی میں آباد ہےاور غلام محمد کی اولاد کراں نا پتن میں آباد ہے ۔

*دیگر اقوام*
شیراں ڈنہ کے قریب درانی قبیلے کے کرنل احمد یار جنگ درانی کی وسیع جاگیر ہے ۔ جو ان کے والد نے قدیم دور میں گکھڑوں سے خریدی تھی ۔ درانی ایبٹ آباد کے رہنے والے تھے ۔ کرنل کی بیگم خیرالنساء کوٹلہ ویلیج کونسل کی لیڈی کونسلر رہی ہے ۔
پیرسوہاوہ محلہ باڑیاں کے مغل بابا گابے کی اولاد ہیں ۔ یہاں پر ان کے چند گھرانے آباد ہیں اور یہ لوگ پکشاہی سے آ کر آباد ہوۓ۔۔ کوٹلہ میں بھٹی خاندان کے دو گھرآباد ہیں ۔ جو مسلم آباد سے آ کر آباد ہوۓ ۔ پکھڑال قبیلے کے یہاں پانچ گھرانے آباد ہیں ۔ مستری پیشہ لوگ جو اعوان کہلواتے ہیں۔ ان کے یہاں پانچ گھرانے آباد ہیں۔ ان کا اولین آبادکار بابا منگا تھا ۔
*جولاہ*
جولاہ قبیلے کے بابا کریم بخش اور مولوی رکن پرانا خانپور سے آکر آباد ہوئے ۔مولوی رکن اس گاوں کے پہلے پیش امام تھے ۔ جولاہ قبیلے کی ایک عورت خانم جان سے راجہ گستاسب کے بیٹے راجہ ظفر نے شادی کی ۔ جسے خاندان قبیلے سے باہر شادی کرنے پر خانپور سے نکال دیا گیا ۔ راجہ ظفر اور راجہ بنارس محلہ جوگیا موجودہ قبرستان والی جگہ آباد ہوئے بعد ازاں راجہ بنارس محلہ کھرنٹی میں آباد رہا ۔ اسی دوران جب راجہ ظفر نے پہلے بھی شادی کی ہوئ تھی جس میں سے اس کی کوئ اولاد نہیں تھی ۔ راجہ ظفر اور اسکی پہلی بیوی برسات کے موسم میں مکان میں گرنے سے فوت ہو گئے تو کریم بخش نے اس سے نکاح کیا جس کی اولاد میں مولوی فقیر محمد ، خانی زمان , پھتا پیدا ہوئے پھتے کی اولاد پیرودھائ راولپنڈی جاکر آباد ہو گئ ۔ جبکہ مولوی فقیر محمد مرحوم کا ذکر گزشتہ باب میں کیا جا چکا ہے۔1955میں اس گاوں کے محلہ کھرنٹی میں آباد واحد گکھڑ بھی واپس چلا گیا ۔ کوٹلہ میں بابا سید یا سیدا نام کی سات شخصیات گزری ہیں ۔ چونکہ ان دنوں ہزارہ میں شاہ اسماعیل اور سیداحمد شہید کی تحریک زوروں پر تھی ۔ اور ان کا تذکرہ زبان ذدِ عام تھا اس وجہ سے ان کی شخصیت سے متاثر ہو کر اکثر نام سیداحمد، سیدمحمد ، رکھے گئے۔
*مسقل نکل مکانی کرنے والے خاندان*
کوٹلہ گاوں میں قدیم دور سے اب تک باہر کسی علاقے سے کوئ آ کرمستقل آباد نہیں ہوا۔ جبکہ یہاں سے کئ گھرانے مستقل نکل مکانی کر گئے ۔ ان میں سے سب سے پہلے ملک محبوب مرحوم کا گھرانہ سنگجانی کے قریب جوڑی راجگان میں جآ کرآ باد ہوا۔ چوہدری محمد عزیز مرحوم نے خویشگی نوشہرہ کواپنا مستقل مسکن بنیایا ۔ چوہدری کرم الہی مرحوم بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر چس کلاں نزد خانپور مستقل شفٹ ہو گئے ۔ چوہدری بخش کے بیٹے سلطان محمد واہ فیکٹری نزد ٹیکسلا میں جا کر مستقل آباد ہوا۔ پکھڑال قبیلے کے نیاز محمد راولپنڈی میں جا کر آباد ہوئے ۔ ڈھونڈ قبیلے کے اکرم اور عبدالرحمن عرف مانا بری امام میں جبکہ محمد صدیق مشراں میں جا کر آباد ہوئے ۔ نیازمحمد مرحوم کے بیٹے چوہدری کرم الہی نے مسلم آباد کو اپنا مستقل مسکن بنایا ۔ بابا آذاد مرحوم کے بیٹے مہربان دھنیال پیرسوہاوہ بری امام میں آباد ہوئے ۔ ان کے علاوہ کوٹلہ کی آخری حدود مگران سے بابا فضل نے کھاریاں شفٹ ہوئے قریشی قبیلے کے فضلم اور قلزم سیدپور شفٹ ہوئے ۔ بابا گلاب کے خاندان کا کوٹلہ سے تعلق ختم ہوا ۔ موہری سے چند گھرانے سہر اور بری امام آباد ہوئے ۔ موجودہ دور میں کوٹلہ کی حدود میں باہر کے کئ لوگوں نے زمینیں خرید لیں جن میں پی ٹی آئ کے راجہ عامر کیانی نے وسیع اراضی خریدی ہے ۔ ۔ جاوہ میں سید خاندان نے زمین خرید کرشیلٹر تعمیر کر لیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حال ہی میں بدراں نکہ میں مونال ہوٹل کے مالک نے زمین خرید کر نیو مونال ہوٹل کی تعمیر شروع کی ۔

سیاسی و سماجی شخصیات
کوٹلہ کی معروف سیاسی و سماجی شخصیات کی فہرست بہت طویل ہے قدیم و جدید دور شخصیات کی خدمات کا مکمل احاطہ پیش کرنے کرنا کے لیے ایک طویل مضمون درکار ہے یہاں پر چند اہم شخصیات کی فہرست پیش کی جاتی ہے قدیم دور کی ممتاز شخصیات میں ،
ملک محمد آذاد مرحوم سابق نمبرادر ، ملک محبوب مرحوم سابق نمبردار ،چوہدری عبدالغنی مرحوم سابق امیداور چئیرمین ، راجہ محمد صادق مرحوم ، چوہدری سیداحمدمرحوم ، قاضی بوستان عباسی ، چوہدری محمد سخی مرحوم ، مولوی بوستان مرحوم ، مولوی فقیر محمد مرحوم ، چوہدری گلاب مرحوم ، ٹکاخان عباسی مرحوم ،چوہدری مصری مرحوم ، چوہدری فضل احمد مرحوم شامل ہیں موجود دور کی ممتاز شخصیات میں حاجی چوہدری عبدالمجید ممبر ضلع کونسل ، حاجی محمد سلیمان عباسی سابق چئیرمین ، راجہ اخترزمان جنرل کونسلر ، سردار فقیر محمد جنرل کونسلر ، امان اللہ خان جنرل سیکرٹری سی ڈی اے لیبر یونین ، چوہدری محمد یامین کسان کونسلر ، چوہدری عبدالجبار کسان کونسلر ، راجہ محمد فاروق عباسی سابق چئرمین ویلیج کونسل ، کرنل احمد یار جنگ درانی ، ، چوہدری الیاس قیوم جنرل کونسلر ، سعید اختر عباسی جنرل کونسلر ، محمد یاسر عباسی یوتھ کونسلر ،
اہم سماجی وکاروباری شخصیات
محمد اسحاق عرف جی مالک ائسلوگرل ہوٹل پیرسوہاوہ ، ملک محمد حنیف ، حوالدار چوہدری اورنگزیب ، (کرنل) عبدالقدیر مرحوم ، حاجی محمداسلم مرحوم ، بابا چوہدری فضل الرحمن (آڑھتی) ،حاجی چوہدری عبدالحمید ، حاجی محمد صابر ، ملک محمد حنیف ناز ،(چئر مین )عبدالخالق ، چوہدری نثار خان ، ملک محمد مقصود ، چوہدری محمد اسحاق ، جہانگیر مغل ، صوبیدار غلام مصطفی ، راجہ عبدالحفیظ ، چوہدری خان محمد، ،چوہدری گل اکثر ، چوہدری محمد حنیف ، ملک محمد یامین ، ہیڈ ماسٹرعبدالغفار ،ماسٹر محمد مطلوب ، ماسٹر محمد پرویز ۔
ذہانت اور قابلیت کے بل بوتے پر نام و مقام پیدا کرنے والی نوجوان شخصیات
پروفیسر ظہور الٰہی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ شعبہ انگریزی گورنمٹ ڈگری کالج غازی ہری پور ،
کیپٹن توقیر جاوید گوجر ،
چوہدری نعیم اختر سابق پروگرام منیجر ادارہ ہلال احمر پاکستان (2015) ، سابق ڈپٹی چیف ایڈمن آفیسر ۔GHQ(مئ 2018 سے اگست 2019 تک ) ، اور اب اگست 2019 سے بحیثیت Monitoring and Evaluation Manager ,UNDPمیں فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔ غالب حسین عباسی (پاکستان انسیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز )
،چوہدری وقار احمد اسسٹنٹ ڈائریکٹر وفاقی ادارہ نیب ۔
نوٹ ! کئ ماہ کی مسلسل محنت سے مذکورہ تحریر منظر عام لائ گئ ہے ۔ اس میں کوٹلہ کا ہر پہلو اجاگر کیا گیا ہے ۔ لیکن اس میں اب بھی اضافہ کی گنجائش باقی ہے ۔ وقتاً فوقتا ً حاصل ہونے والی نئ معلومات کا اندراج ہوتا رہے گا ۔قدیم دور کے بزرگوں کی نایاب تصاویر بہت تگ دو کے بعد موصول ہوئ ہیں ۔ تصاویر کی تلاش کے دوران کئ ڈرامائ واقعات بھی پیش آۓ۔ ۔بہرحال آئینہ کوٹلہ آپ کے سامنے ہے ۔ آپ اس کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ یہ آپ کی بصیرت اور بصارت پر منحصر ہے ۔
تلاش ِ ماضی ۔ ۔ ۔ محمد امجد چوہدری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔