سپاہی مقبول حسین:جرآت،بہادری و حب الوطنی کی لازوال داستان

سپاہی مقبول حسین

سپاہی مقبول حسین نے جرات،بہادری اور حب الوطنی کی وہ مثال قائم کی جو کہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیگی،سپاہی مقبول حسین جیسے ہیرو ہی ہمارے سروں کا تاج ہیں ،1965کی پاک بھارت جنگ میں یادگار شہداء پہ سپاہی مقبول حسین کا نام بھی بطور شہید کندا ہو چکا تھا تاہم قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا

یہ واقع 1965کی پاک بھارت جنگ کے چالیس سال بعد چشم فلک نے واہگہ بارڈر پہ دیکھا جب پاکستان کے ازلی دشمن نے17ستمبر 2005 ء کو واہگہ بارڈر کے راستے قیدیوں کا ایک گروپ پاکستانی حکام کے حوالے کیا،اس گروپ میں مختلف نوعیت کے قیدی تھے،ان کے ہاتھوں میں گٹھڑیوں کی شکل میں کچھ سامان تھا جو شاید ان کے کپڑے وغیرہ تھےلیکن اس گروپ میں ساٹھ پینسٹھ سالہ ایک ایسا پاکستانی بھی شامل تھا،جس کے ہاتھوں میں کوئی گٹھڑی نہ تھی

جسم پر ہڈیوں اور ان ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی اس کی کھال کے علاوہ گوشت کا کوئی نام نہیں تھا،اور جسم اس طرح مڑا ہوا تھا جیسے پتنگ کی اوپر والی کان مڑی ہوتی ہے،خودرو جھاڑیوں کی طرح سرکے بے ترتیب بال جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ طویل عرصے تک ان بالوں نے تیل یا کنگھی کی شکل تک نہیں دیکھی ہو گی;اور دکھ کی بات کہ پاکستان داخل ہونے والے اس قیدی کی زبان بھی کٹی ہوئی تھی لیکن ان سارے مصائب کے باوجود اس قیدی میں ایک چیز بڑی مختلف تھی اور وہ تھیں اس کی آنکھیں جن میں ایک عجیب سی چمک تھی،پاکستانی حکام کی طرف سے ابتدائی کارروائی کے بعد ان سارے قیدیوں کو فارغ کردیا گیا،

سارے قیدی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے،لیکن اس بوڑھے قیدی کو اپنے گھر کے بجائے کہیں اور جانا تھا ،اس کی منزل کا کسی کو اتا پتا نہیں تھا ،تاہم اس کی انکھوں میں ایک چمک تھی ،زبان کٹی تھی ،بول نہیں سکتا تھا ،جسم لاغر سہی ،مگر جذبہ جوان تھا کانپتے اور ناتواں ہاتھوں سے وہ ٹوٹے ہوئے الفاظ لکھ لکھ کر اپنی منزل کا پتہ پوچھتا رہا اور ہر کوئی اسے ایک غریب سائل سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا رہااور یوں 2005 ء میں یہ بوڑھا شخص پاکستان آرمی کی آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اس نے ایک عجیب دعویکردیا،اس دعوے کے پیش نظر اس شخص کو رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پیش کردیا،کمانڈر کے سامنے پیش ہوتے ہی نہ جانے اس بوڑھے ناتواں شخص میں کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا اور ایک کاغذ پر ٹوٹے ہوئے الفاظ میں لکھا’’سپاہی مقبول حسین نمبر 335139 ڈیوٹی پر آگیا ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے‘‘کمانڈر کو کٹی ہوئی زبان کے اس لاغر، ناتواں اور بدحواس شخص کے اس دعوے نے چکرا کے رکھ دیا،کمانڈر کبھی اس تحریر کو دیکھتا اور کبھی اس بوڑھے شخص کو جس نے ابھی کچھ دیر پہلے ایک نوجوان فوجی کی طرح بھرپور سلیوٹ کیا تھا،کمانڈر کے حکم پر قیدی کے لکھے ہوئے نام اور نمبر کی مدد سے جب فوجی ریکارڈ کی پرانی فائلوں کی گرد جھاڑی گئی اور اس شخص کے رشتہ داروں کو ڈھونڈ کے لایا گیا تو ایک دل ہلا دینے والی داستان سامنے آئی ،اور یہ داستان جاننے کے بعد اب پھولوں ، فیتوں اور سٹارز والے اس لاغر شخص کو سلیوٹ مار رہے تھے،

اس شخص کا نام سپاہی مقبول حسین تھ65 ء کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین کیپٹن شیر کی قیادت میں دشمن کے علاقے میں اسلحہ کے ایک ڈپو کو تباہ کرکے واپس آرہا تھا کہ دشمن سے جھڑپ ہو گئی،سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھائے اپنے افسران کے لئے پیغام رسانی کے فراءض کے ساتھ ہاتھ میں اٹھائی گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا مقابلے میں زخمی ہو گیا،سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے تو سپاہی مقبول حسین نے انکار کرتے ہوئے کہاکہ بجائے میں زخمی حالت میں آپ کا بوجھ بنوں ، میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کیلئے محفوظ راستہ مہیا کرتا ہوں ،ساتھیوں کا اصرار دیکھ کر مقبول حسین نے ایک چال چلی اور خود کو چھوٹی کھائی میں گرا کر اپنے ساتھیوں کی نظروں سے اوجھل کرلیا، دوست تلاش کے بعد واپس لوٹ گئے تو اس نے ایک مرتبہ پھر دشمن کے فوجیوں کو آڑے ہاتھوں لیا،

اسی دوران دشمن کے ایک گولے نے سپاہی مقبول حسین کو شدید زخمی کردیا،وہ بے ہوش ہو کر گرپڑا اور دشمن نے اسے گرفتار کرلیا،جنگ کے بادل چھٹے تو دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا تو بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکرنہ کیا،اس لئے ہماری فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصورکرلیا،بہادرشہیدوں کی بنائی گئی ایک یادگار پر اس کا نام بھی کندہ کردیا

گیا،ادھربھارتی فوج خوبصورت اور کڑیل جسم کے مالک سپاہی مقبول حسین کی زبان کھلوانے کیلئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگی،اس چار بائی4فٹ کے ایک پنجرا نما کوٹھڑی میں قید کردیا گیا،جہاں وہ نہ بیٹھ سکتا تھا نہ لیٹ سکتا تھا،دشمن انسان سوز مظالم کے باوجود اس سے کچھ اگلوانہ سکا تھا،

سپاہی مقبول حسین کی بہادری اور ثابت قدمی نے بھارتی فوجی افسران کو پاگل کردیا،جب انہوں نے دیکھا کہ مقبول حسین کوئی راز نہیں بتاتا تو وہ اپنی تسکین کیلئے مقبول حسین کو تشدد کا نشانہ بنا کر کہتے ’’کہو پاکستان مردہ باد‘‘ اور سپاہی مقبول حسین اپنی ساری توانائی اکٹھی کرکے نعرہ مارتا پاکستان زندہ باد، جو بھارتی فوجیوں کو جھلا کے رکھ دیتا،وہ چلانے لگتے اور سپاہی مقبول کو پاگل پاگل کہنا شروع کردیتے اور کہتے کہ یہ پاکستانی فوجی پاگل اپنی جان کا دشمن ہے اورسپاہی مقبول حسین کہتا ہاں میں پاگل ہاں میں پاگل ہوں; اپنے ملک کے ایک ایک ایک ذرّے کے لئے،ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کے کونے کونے کے دفاع کیلئے،سپاہی مقبول حسین کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ دشمنوں کے ذہنوں پر ہتھوڑوں کی طرح لگتے،آخر سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی اور اسے پھر 4×4 کی اندھیری کوٹھڑی میں ڈال کر مقفل کردیا،

سپاہی مقبول حسین نے 1965ء سے لیکر 2005ء تک اپنی زندگی کے بہترین چالیس سال اس کوٹھڑی میں گزار دیئے اب وہ کٹی زبان سے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنے جسم پر لباس کے نام پر پہنے چیتھڑوں کی مدد سے 4×4 فٹ کوٹھڑی کی دیوار کے ایک حصے کو صاف کرتا اور ا پنے جسم سے رستے ہوئے خون کی مدد سے وہاں پاکستان زندہ باد لکھ دیتا،یوں سپاہی مقبول حسین اپنی زندگی کے بہترین دن اپنے وطن کی محبت کے پاگل پن میں گزارتا رہا،

آئیں ہم مل کر آج ایسے سارے پاگلوں کو سلیوٹ کرتے ہیں ، سپاہی مقبول حسین29اگست2018کو ہم سے جدا ہو گے،مقبول حسین کا سفر آخرت جس شان و شوکت سے اختتام پذیر ہوا پاک فوج اور پوری قوم نے اس عظیم ہیرو کو جو عزت بخشی اس کی مثال ملنی مشکل ہے مانسر کیمپ، راولپنڈی اور تراڑکھل میں جس جذباتی منظر اور قومی وقار سے نماز جنازہ کی ادائیگی اور فوجی و قومی اعزاز کے ساتھ جس طرح تدفین ہوئی یہ مقام صرف ان لوگوں کو ہی یقینا حاصل ہوتا ہے جو غیر معمولی کام کر جاتے ہیں اس عزت و وقار کی تو ہر کوئی تمنا کرتا ہے مگر یہ تو اللہ کے خاص اور پسندیدہ لوگوں کو ہی حاصل ہوتا ہے

ٓ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں