آئی جی پنجاب غلام دستگیر کی سٹی چیف پولیس لاہور عمر شیخ کیساتھ تنازعہ کے بعد جبری تبادلے کی خبر اور بحث لاہور موٹروے پر ثنا ء نامی پاکستان کی بیٹی کی بچوں کے سامنے ڈکیتوں کے ہاتھوں آبروریزی کے واقعہ تلے کہیں تب گئی ہے ۔اب انعام غنی آئی جی پنجاب ہیں جو خود بھی بعض معاملات پر تنازعات اور سکینڈل کا شکار ہیں ۔موٹروے پر آبروریزی اور ڈکیتی کا معاملہ شاہد سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کیلئے نیا ہو لیکن پولیس کی اعلیٰ قیادت محرر صاحبان اور تھانوں کے اکثر ایس ایچ اوز یہ جانتے ہیں کہ اکثر ڈکیتیوں میں درندے نما یہ ملزمان گھریلو خواتین کو ان کے گھر والوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر اہلخانہ اور گھر کا سربراہ عزت کے خوف سے واقع کو دبا دیتا ہے، اس پر سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پولیس اس حوالے سے حقائق کا علم ہونے کے باوجود کوئی خونچکاں ایکشن نہیں لیتی، مجھے یاد ہے کہ 2001 یا 2002 میں راولپنڈی میں بھی ایک ڈکیت گینگ ڈکیتیاں کرتا تھا یہ گینگ 8 سے 11 ڈاکوئوں پر مشتمل تھا ،جو پوش گھروں میں آدھی رات کو گھس جاتے تھے اور پھر وہاں پر شیطانیت کا رقص کرتے تھے،درجنوں گھرانے انکی شیطانی کھیل میں ذہنی طور پہ تباہ ہوگئے، پولیس کے پا س جو رپورٹ درج ہوتی تھی وہ صرف ڈکیتی کی ہوتی تھی ،اس زمانے میں ایک پولیس آفیسر راجہ ثقلین نے اس پر بہت کام کیا ،راجہ ثقلین کوشاہد کسی شریف گھرانے کے متاثرہ شخص نے اصل سٹوری سنا دی تھی ،پھر ہم نے دیکھا کہ راجہ ثقلین نے اس گینگ کا دن رات محنت کرکے کیسے صفایاکیا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ڈکیتوں کے ہاتھوں کسی خاتون کا یوں ریپ ہوجانا کوئی پہلا واقع نہیں ہے،یہاں پہ گھروں کے اندر خواتین مردوں کے سامنے اگر محفوظ نہیں تو پھر کیسے ہائی ویز جہاں ہر قسم کے جرائم پیشہ افراد دن دندناتے پھرتے ہوں وہاں ایک نہتی خاتون کا شیطانوں کے ہتھے چڑھنا کوئی انوکھی بات نہیں ،انوکھی بات یہ ہے کہ اربوں روپے کے ٹیکسوں سے تربیت اور پالے جانے والے پولیس اور قانون نافز کرنے والے اہلکاروں کا تربیت نہ پاسکنا،ایسے جرائم پیشہ افراد کا قانون کی گرفت سے بچ نکلنا زیادہ فکر والی بات ہے،موٹروے اور ہائی ویز ویران علاقوں کی نسبت زیادہ محفوظ تصوع ہوتی ہیں ،بلکہ ہمارے موٹرویز کا تو سلوگن ہی یہ ہے کہ محفوظ ہائی ویز،پھر اس واقعہ کی زمہ داری تمام وردی پوشوں اور اس جگہ سے گزرنے والے عام شہریوں پہ بھی پے جنہون نے اہک گاڑی کھڑی دیکھی اور وہ اسکو مدد پہنچابے رکے نہیں،
ثنا نامی اس خاتون نے اس ظلم وجبر کیخلاف آواز بلند کی ہے اس نے اپنی عزت بچانے کیلئے چپ رہنے کی بجائے ملک کی کروڑوں خواتین کی عزت بچانے کی جنگ کی ابتداء کی ہے ۔
میں یہ ماننے کو تیا رنہیں کہ پولیس کو ان ملزمان کا پتہ نہیں، جس دیدہ دلیری سے انہوں نے یہ واردات کی مجھے لگتا ہے کہ یہ کہیں پولیس کے اہلکار نہ ہوں کیونکہ ڈکیت کتنے بھی بہادر اور دلیر نہ ہوں وہ اس طرح کئی منٹ تک ایک پر رونق سڑک پر ایسی واردات نہیں کرسکتے!
پیارے پڑھنے والو!
جب تک پولیس اصلاحات نہ ہوئی اور چھوٹی بڑی شاہراہوں پرCCTV کیمرے نہ لگائے جائیں جب تک پولیس کی وردی تبدیلی کی بجائے ان کی تربیت پر پیسہ خرچ نہیں ہوگا ۔ایسے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔
CCPO عمر شیخ جو پہلے ہی تنازعات کی زد میں ہیں ان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک ریٹائرڈ سیشن جج ثناء اللہ خان نیاز ی نے ایک ڈکیت اور فیصل آباد میں اس وقت کے ایس پی عمر شیخ (موجودہ CCPO لاہور)کا واقعہ شیئر کیا ہے ۔اس واقع کی صحت کے حوالے سے کوئی تصدیق تو نہیں ہوسکی لیکن جس دوست نے یہ واقعہ شیئر کیا ہے وہ ایک ذمہ دار شخص ہے لہذا اس سے پولیس کا ڈکیتیوں کے حوالے سے کردار واضح ہوتا ہے ۔
ثناء اللہ نیازی کا عمر شیخ پر الزام یہ ہے کہ وہ جب ایس پی فیصل آباد تھے تو انہیں ایک مدعی مقدمہ نے یہ شکایات/ کیس درج کرایا کہ ایس پی عمر شیخ نے اسکے گھر ڈکیتی کا اصل ملزم چھوڑ دیا ہے جس پر سیشن جج نے اس ایس پی کو بلوا بھیجا تو وہ نہیں آئے پھر سیشن جج نے عمر شیخ کے وارنٹ نکالے تو وہ ہائیکورٹ چلے گئے لیکن سیشن جج نے ان کا پیچھا کیا ،عمر شیخ تبادلہ کراکر چلے گئے اور سیشن جج ثنا ء اللہ نیازی نے ان کو اشتہاری قرار دیا وہ اشتہاری آج لاہور پولیس کا چیف ہے ۔
پیارے پڑھنے والو!
وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان ترین نے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ سردیوں میں گیس کی شدید کمی ہوگی اسکے بعد انہوں نے سندھ حکومت کو LNG خریدنے کا کہا لیکن سندھ حکومت نے یہ خریداری یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ LNG گیس مہنگی ہے اس پر سوال یہ اٹھتا ہے کیا حکومت کے اندر موجود مافیاز گیس بحران کا واویلا کرکے LNG کے کاروبار سے اربوں روپے بٹورنے کی کوشش تو نہیں کررہے ؟ اگر سندھ حکومت وفاقی حکومت کی ہدایت کے جواب میں مہنگی LNG کا انکشاف نہ کرتی تو معصوم عوام شاہد اس باربھی آٹے،چینی اور بجلی کے بعد گیس کے مافیاز کے ہاتھوں کنگال ہوجاتے ،اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ صرف سندھ نے مہنگی LNG خریدنے سے انکار کیا ۔بلوچستان ،پنجاب اور کے پی کے نے یہ مہنگی خریداری قبو ل کرلی ہے لہذا وہاں کے عوام اب “کھنڈے استرے “سے اپنی کھال اتروانے کی تیاری کرلیں ۔
پیارے پڑھنے والو!
اسلام آباد میں حال یہ ہے کہ وفاقی حکومت شہریوں کے بنیادی حق بجلی اور گیس کو پامال کررہی ہے ۔بدقسمتی یہ ہے کہ یہ پابندی سی ڈی اے نے اپنی نااہلی چھپانے کیلئے اعلیٰ عدلیہ کے سامنے بطور شیلڈ پیش کی ہے اور اس سے بھی افسوسناک کام یہ ہوا کہ جو عدالتیں عام آدمی کے حق کی حفاظت کی ضامن سمجھی جاتی ہیں، انہوں نے بھی سی ڈی اے افسران کے گور کھ دھندے میں الجھ کر شہریوں کو گیس بجلی جیسے بنیادی حق سے محروم کرنے میں اپنا کردا ر ادا کیا ۔سوال یہاں یہ ہے کہ سی ڈی اے کی نااہلی کے باعث اس وقت پورے اسلام آباد کے 75 فیصد پر پرائیویٹ ہاوسنگ سکیمیں ،کوآپریٹو سکیمیں کام کررہی ہیں یا پھر بھارہ کہو،ترلائی کلاں ،جاوا۔سورائین ،ترنول ،شاہ اللہ دتہ یا مل پور کی شکل میں مشروم آبادیاں آباد ہوئی ہیں ،ان تمام علاقوں میں 90 فیصد رقبہ پر گھر بن چکے ہیں اور جب وقت تھا سی ڈی اے نے ان آبادیوں کو ماسٹر پلان کے تحت روکا نہیں اب جب عام آدمی اپنے بچوں کیلئے سستے داموں زمین خرید کر زندگی بھر کی جمع پونجی لگا چکا تو سی ڈی اے نے کمال چالاکی سے عدالتوں کے ذریعے وہاں پر یہ ظلم وجبر برپا کی کہ انکو گیس بجلی جیسی نعمت سے محروم کردیا ۔وفاقی کابینہ کو چاہیے کہ وہ اس معاملہ کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا واقعہ قرار دیتے ہوئے میٹرز کی بحالی کا ایگزیکٹو آرڈرجاری کریں۔
