بدقسمتی کے ساتھ ہم ایک تنگ نظر اورتنگ دل معاشرے میں رہتے ہیں،جہاں پر اچھے کو اچھا کہلوانے کیلے مرنا پڑتا ہے ورنہ جیتے جی کوئی آسمان سے تارے بھی توڑ لاے تو ہمارا اتنا ظرف نہیں کہ کسی اچھے،ایمانداراوردیانتدار شخص کی حوصلہ افزائی کیلے دوالفاظ ہی بول سکیں،اس کے برعکس اگر کسی شخص میں 99 اچھائیاںاور ایک برائی ہے تو ہمیں وہ ا,چھی باتیں تو نظر نہیں آئیں گی لیکن ایک خامی فورانظر آجاتی ہے اور پھرہم دن رات اسی کوایسے چھانتے چھانتے گزار دیتے ہیں جیسے ہم اپنی زات میں فرشتہ ہیں

۔۔۔۔زمانے کی اس روایت کوترک کرتے ہوے میں نے نڑہوتر کی ایک ایسی عظیم شخصیت کا انتخاب کیا جوایماندار، دیانتدار،کھرے انسان اور ایک سچے عاشق رسول اورپکے مسلمان ہیں، اللہ تعالی ان کو ایسی ہی ایمان والی لمبی زندگی دے۔۔۔
میری مرادغازی حوالدار(ر) لعل اکبر صاحب ہیں،جو 1943ء کو قاسم دین صاحب کے گھر مڑیال میں پیدا ہوے،گورنمنٹ پرائمری سکول سیری سے ابتدای تعلیم حاصل کی،پھر1958ء میں گورنمنٹ ہائی سکول لورہ سے مڈل پاس کیا، تعلیم کا بے پناہ شوق ہونے کے باوجودمالی مشکلات نے مزید تعلیم حاصل کرنے سے روک دیااورپشاور میں ہوٹل پر ایک روپیہ روزانہ اجرت پر کام شروع کردیا،اکتوبر 1959ء کو پاک آرمی میں بھرتی ہوگے،اور آرمی کور آف سگنل میں بحثیت وائرلیس آپریٹر تربیت کیلے ٹریننگ سنٹر کوہاٹ چھاونی چلے گے،1960ء میں کویٹہ تبادلہ ہوگیا،1961ء میں شادی ہوگی،1965ء کی جنگ میں سلیمانکی سرحد پر اپنی بٹالین کے ہمراہ بگوشاہ اور قرب وجوار کے دیہات سے بھارتی فوج کو بھگا کردم لیا، کچھ کو قیدی بھی بنا لیا،اس دوران بھارتی وایرلیس سسٹم نےحوالدار لعل اکبر صاحب کے وایرلیس کمیونیکیشن سسٹم کو درہم برہم کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا، جنگ کے خاتمے پر راولپنڈی اور پھر کراچی تبادلہ ہوگیا،بعد ازاں مختلف جگہوں پر ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے، اور باالاخراکتوبر1983ء کواپنی 24 سالہ نوکری ختم کر کے پنشن لے لی، لیکن اپنی آخرت کی بہتری کیلے عوام کی عملا خدمت کا بیڑا اٹھالیااور بیوگان کی پنشن کیلے انکی مدداور رہنمای کیلے لورہ ڈاکخانے کے ساتھ ہی دکان لے لی اور ہر ایک کی بڑھ چڑھ کر خدمت کرتے ریے، ؟ان کی ایمانداری، دیانتداری کو دیکھتے ہوے اہلیان نڑہوتر نے جامع مسجد نڑہوتر کے مستقل خزانچی کے اختیارات بھی سونپ دیے، باقاعدگی سے نمازکی ادایگی کے ساتھ مسجد کی تعمیروترقی کیلے اہم کردار ادا کیا،گاوں کے لوگوں کے ہزاروں اختلافات کے باوجود ہمیشہ اپنے آپ کو غیرجانبدار رکھااور کبھی کسی تنازعہ کا حصہ نہیں بنے،۔۔۔۔
حوالدار لعل اکر نڑہوتر کے ان چند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی گاوں اور اپنے لوگوں کیلے خدمات قابل فخر ہیں،

انھوں نے وطن کے بوڑھے سپاہیوں کے نام ایک غزل بھی لکھی ۔۔۔
“یہ بوڑھے وطن کے تھے بانکے سپاہی
یہ صدنازوتمکین بصد کجلای
چلتے تھے جب یہ فضاء جھومتی تھی
خاک وطن ان کے قدم چومتی تھی
نشان شجاعت پہ یوں چھوڑتے تھے
یہ ٹینکوں اور توپوں کا رخ موڑتے تھے
ہے یہ حقیقت نہیں ہے فسانہ
چونڈ کے میدان سے پوچھے زمانہ
ان ہی میں تھے وطن کے بہادر وہ بیٹے
ٹینکوں کے آگے جو بم باندھ لیٹے
اب ہوے بوڑھےولاغر بے چارے
چلتے ہیں اب یہ لٹھ کے سہارے
خبردار ان کو کوئی کم تر نہ جانے
یہ تھے صف شکن کوئی مانے نہ مانے
یاالہی جوانوں کو ہمارے وہ جذبہ عطا کر
بچائیں وطن کو یہ کچھ لٹاکر
دعاہے لعل اکبر کی یارب باری
دم آخرکلمہ زبان پہ ہو جاری
لحد میں مری جب چھایے اندھیرا
لایں تشریف آقا تو ہو جائے سویرا
نکرین سے آکے فرمایں آقا
چھوڑواسے یہ تو عاشق ہے میرا”
ہمارے یہ بزرگ ہمارے لے بڑا ہی قیمتی اور نایاب سرمایہ ہیں،نوجوانوں کو چاہیے دوسروں کی اندھی تقلید کی بجاے اپنوں کو رول ماڈل بنایں اور ایسے نایاب ہیروں کی زندگی میں قدر کریں، اللہ پاک حوالدار لعل اکبر صاحب کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قاہم وداہم رکھے۔۔۔ آمین