جناب وزیر اعظم:لورہ کی وادیوں کے زخم ہی پوچھ لیں:مکتوب دوبئی،عطاء الرحمن عباسی

مسٹر پرائم منسٹر!! ہمیں خان سے آزاد کر دیں۔
جولائی دو ہزار اٹھارہ ے کے الیکشن میں نتائج تسلیم کر لینے کی ایک وجہ پاکستان کی نوجوان نسل کا آپ کے نعروں یا مبینہ وژن کی کشش کی وجہ سے آپ کی طرف جھکاؤ تھا۔ دنیا بھر کے پاکستانیوں کے لیے ماحول مسحور کن اور خوشبودار تھا اور یہی برآمدی بیل تحصیل لورا میں بھی سینگیں ہلا رہا تھا اور اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
مسٹر پرائم منسٹر! جب آپ نتھیا گلی کی خوبصورت چوٹیوں پر بیٹھ کر نیچے بظاہر ہنستی بستی وادیوں کو دیکھ کر محظوظ ہو رہے ہوں تو ایک بار “جنت نظیر وادی تحصیل لورہ” کے بارے میں بھی پوچھ لینا۔اس وادی کی زخم خوردہ آبادیوں کے بارے میں بھی سوال کر لینا۔ یہ بھی پوچھ لینا کہ کیا ان کے پاس فخر کرنے کا کوئی بہانہ ہے۔
مسٹر پرائم منسٹر! پوری وادی لورہ میں جدید دنیا کا مقابلہ کرنے کے تصور کا ایک پروجیکٹ بھی موجود نہیں۔ مواصلات کا نظام موت کے رستوں کی نشاندھی ہے اور “بس اللہ کو یہی منظور تھا” پر کام کرتا ہے۔ صحت کا نظام ” بس دعا کریں اور مریض کو پنڈی لے جائیں” پر چلتا ہے تعلیمی نظام کہیں تو لائقیت اور عدم موجودگی کیساتھ ساتھ”کاغذ کے ٹکڑے ڈگریوں”کی مرہون منت ہے۔
نسلوں کا مستقبل اندھیروں میں بھٹک رہا ہے۔ مایوسی اور گھٹن اس وادی کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ سیاسی نمائندے اپنی نسلوں کو وادی پر مسلط کرنے کے لیے پوری طرح تیار کر رہے ہیں جن کے مزاج بھی ایسے ہیں جیسے اس وادی کے باسی ہی نہیں ہیں۔پچھلی کئی دہائیوں میں بقول “مسلم لیگ ن” کے بظاہر پوری وادی میں ترقیاتی کاموں کے جال بچھا دیے لیکن اصل میں تو سیاسی ہلچل سے زیادہ کچھ نہیں نظر آ رہا۔”کھاتے ہیں لیکن لگاتے بھی تو ہیں” پر عمل پیرا ہو کر لگانے کا تو پتہ نہیں لیکن آپ کہا کرتے تھے کہ کھانے والوں کو چھوڑوں گا نہیں۔ اپنی مرضی کے ماتم اور شادی پر حاضری دے کر اور راہ چلتے کسی غریب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ایک سیلفی لیکر اگلے لمحے سوشل میڈیا پر ڈال کر ووٹ کی کوشش کا حربہ کوئی ان سے سیکھے۔(بندہ ناچیز مسلم لیگی ہے)
مسٹر پرائم منسٹر! سردار ادریس صاحب کو ہماری ووٹوں سے دور رکھ کر ہمارے زخموں پر نمک پاشی کی گئی ورنہ سردار صاحب ہی ہمارے علاقے کے دردمند نمائندے ٹھہرے تھے۔ وہی شخص ہمارے علاقے کی محرومیاں دور کرنے کی کوشش کرتا رہا۔(سردار صاحب نے ہمارا ذاتی نقصان بھی کیا لیکن معاف کیا).
مسٹر پرائم منسٹر! تحصیل لورہ کی شکل میں ایک ننھا وجود کسی وینٹیلیٹر پر پڑے مریض کی طرح موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ ایک ایسا علاقہ جس کی جغرافیائی سرحدوں پر اسلام آباد، مری، چھانگلہ گلی، ہری پور آباد ہوں اور روزانہ اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کی خبریں آ رہی ہوں تو وادی لورہ کی صورتحال کشمیر جیسی انگار وادی کی لگتی ہے۔
مسٹر پرائم منسٹر! آپ کا وزیر اعلیٰ محمود خان تحصیل لورا تو کیا ضلع ایبٹ آباد کا بھی دشمن لگتا ہے۔ مسلم لیگ کی ایک سیٹ بھی اس سے ہضم نہیں ہو رہی یا پٹھانوں کا تعصب سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اسلام آباد ٹو چھانگلہ گلی روڈ منصوبے پر ڈاکہ ڈالا اور مبینہ طور پر سوات لے گیا۔ لورہ گھوڑا گلی روڈ موت کا کنواں بن چکا لیکن کوئی پرسان حال نہیں جتنے عرصے میں یہ ٹھیک ہو گا تو حادث دوسرے روڈز پر جنم لینا شروع کر دیں گئے اور پھر وہی رونا دھونا شروع۔۔ بنیادی سہولیات کا فقدان ہے اور خیبرپختونخواہ حکومت کو ترقیاتی کاموں کے لیے یہ تحصیل لورا تو جیسے ایک گھوسٹ وادی لگتی ہے۔
مسٹر پرائم منسٹر! تحصیل لورا کے لوگوں کے سینوں میں چھپے غضب کوایک ہوا کی ضرورت ہے۔ لوگ بے بس ہو چکے ہیں۔ اپنی نسلوں کے مستقبل کی مزید قربانی دینے کے لیے تیار نہیں۔ اب اور درد سہے نہیں جاتے اور نہ حوصلہ ہے سہنے کا۔
مسٹر پرائم منسٹر! آپ وزیراعلی خیبرپختونخواہ سے تحصیل لورا کے بارے میں چار سوال کر دیں۔

  1. کیا تحصیل لورا کے لوگوں کا مستقبل محفوظ بنانے کا کوئی ایک میگا پروجیکٹ لانچ کیا ہے؟
  2. کیا تحصیل لورا کا انفراسٹرکچر اور مواصلات کے ذرائع محفوظ ہیں۔
    3.صحت کا نظام کتنا فائدہ مند ہے۔
  3. ٹیکنیکل تعلیم کا کوئی بندوست ہے اور اتنی پسماندگی کو اوپن میرٹ کیوں منسلک کیا گیا ہے
    دیر اتنی ہو چکی کہ موجودہ مسائل کو حل کرتے کرتے پچھلے گٹر پھر کھل جائیں گے اور بس ہمارا رونا پچھلوں کو ٹھیک کرنے میں گزر جائے گا۔
    تحریک انصاف کی حکومت کا انصاف اس وادی لورہ میں کہیں نظر نہیں آ رہا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں