بیوروکریسی اور ملک فراست اعوان
نقطہ:اصغر چوہدری
اسلام علیکم پیارے قارئین:طویل عرصہ؛ نقطہ ؛سے دور رہنے کے بعد بعض انتہائی مخلص احباب کی ترغیب کے بعد دوبارہ’نقطہ‘ پیش خدمت ہے, اس بار کوشش رہے گی کہ نقطہ کی ”دھار”اتنی تیز نہ ہو اور نہ ہی الفاظ کی کاٹ اتنی زیادہ ہو کہ ناقابل برداشت قرار دی جائے۔قارئین آج کا موضوع ہماری بیوروکریسی کی افسر شاہی ہے میں اکثر اپنے پروگراموں میں بھی ان ”بابووں ”کا ذکر کرتا رہتا ہوں جو ٹھنڈے گرم کمروں میں بیٹھ کے ملک کے بڑے بڑے فیصلے کروا دیتے ہیں۔گزشتہ 22 سالہ متحرک صحافت میں میرا پسندیدہ میدان صحافت ملکی سیاست,وفاقی کابینہ کے من موجی فیصلے اور پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی کوریج تھا،بالخصوص پبلک اکاؤنٹس کمیٹی پارلیمنٹ کا ایک ایسا بالا دست فورم ہے جہاں ہر وزارت میں ہونے والی مالی بے ضابطگیاں شیشے کی طرح صاف دکھائی دیتی ہیں۔جو احباب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات رکھتے ہیں کہ کمیٹی کور کرنے والے پارلیمانی رپورٹرز کی نظر میں ملین روپوں کی بے قاعدگی و بے ضابطگی کوئی معنی ہی نہیں رکھتی کیونکہ یہاں ہر دوسرا آڈٹ پیرا اربوں روپوں کی مالی بے ضابطگی کا نکلتا ہے, اتنے عرصے سے اس کمیٹی کو کور کرتے ہوئے کوئی ایسا موقع نہیں آیا جب اس بے قاعدگی و بے ضابطگی کی تان جا کے کسی وزیر مشیر یا سیاست دان پہ ٹوٹی ہو ہمیشہ ذمہ دار بیوروکریسی ہی نکلتی رہی, شاید یہی وجہ تھی کہ ان بائیس سالوں میں بھی میں نے اپنی بیٹس کو تبدیل نہیں کیا اور نہ ہی کسی بیوروکریٹ سے دوستی کی جوکہ سراسر گھاٹے کا سودا ہی نکلا،کیونکہ ہماری انکھوں کے سامنے کا ہی معاملہ تھا کہ نیو انٹرنیشنل ایئرپورٹ اسلام آباد کے ایک ٹھیکے میں بارہ ارب روپے کی بے ضابطگی کمیٹی نے پکڑی تھی مگر بدقسمتی سے کچھ کر نہ سکی کیونکہ فائل بنانے والے اتنے فنکار ہوتے ہیں کہ پکڑائی نہیں دیتے, سابق صدر پرویز مشرف میں ہمارے دوست میاں شمیم حیدر ریلوے کے وزیرتھے جن سے ہماری یاد اللہ بہت اچھی تھی ان کی کوشش تھی کہ کچھ” کام” نکل آئے مگر ان کا واسطہ ایک ”گھاگ”وفاقی سیکرٹری سے پڑا تھا جس کے سامنے ان کی دال گل نہ سکی, اسی طرح وفاقی وزیر پوسٹل سروسز سردار عمر گورگیج اللہ لوک قسم کے آزاد منش انسان تھے انہیں بیوروکریسی نے ایسا چونا لگانے کی کوشش کی کہ اگر کامیابی مل جاتی تو وہ بھی آج کسی عدالت کے چکر لگا رہے ہوتے،تاہم بعض بہت ہی اچھے و نامی گرامی بیوروکریٹ ہیں اور رہے بھی ہیں جہنوں نے اپنے دامن کو ”داغدار”نہیں ہونے دیا اس لیے ہم بھی انہیں اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں جس کی مثال پولیس سروس گروپ کے ناصر درانی ہیں جنہوں نے اسلام آباد میں ون فایؤ متعارف کروائی اور بعد ازاں خیبر پختونخواٗ پولیس میں نمایاں خدمات سرانجام دیں یہ الگ بات ہے کہ ”پنجاب پلس“ کے مزاج کو سمجھ نہ سکے۔بیوروکریسی میں بڑا اہم رول ایک سیکشن افسر کو ہوتا ہے،مزکورہ سیکشن افسر فائل بناتے ہی اس پہ ایک نوٹ لکھ سکتا ہے جوکہ سربراہ مملکت بھی تبدیل کرنے سے ہچکچاتا ہے۔
چند ماہ قبل لورہ کالج گروانڈ میں ایجوکیشنل گالا میں ایسے ہی ایک افسر کی تقریر میری نظر سے گزری جو دل کو ”بھا ”گئی اس افسر کے الفاظ بڑے نپے تلے تھے اور سچائی سے لبریز بھی تھے اپنے علاقے میں ڈاکٹر جہانگیر عباسی کے بعد یہ دوسرے سرکاری افسر تھے جن کے الفاظ نے مجھے اپنی جانب کھینچا, وڈیو منگوائی اور وول نیوز پہ جاری کر دی, یہ افسر جو لورہ کو روشنیوں کا شہر بنانے کے عزم کا اظہار کر رہے تھے ہمارے ٹی ایم او ملک فراست اعوان تھے۔
مزکورہ ٹی ایم او صاحب کی تقریر میں نے متعدد بار سنی اور آخر کار ان کے دفتر تک پہنچ ہی گیا پہلی ملاقات ہوئی اور پھر ایک سلسلہ شروع ہوگا،ہر ملاقات میں مجھے کچھ نئی چیزیں ہی ملیں جو کہ پروگرامز کی صورت میں وول نیوز کی سکرین کا حصہ بنیں۔ملک فراست اعوان ایک ایسے سرکاری افسر ہیں جوکہ ”روایتی بابوؤں“ کے برعکس کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں۔ گوکہ ملک فراست اعوان کے ساتھ تمام ملاقاتیں اور پروگرام میری ہی خواہش پہ ہوئے کھبی انہوں نے کوشش نہیں کی کہ اپنی ”کارکردگی”دکھا کے اپنے افسران بالا کے سامنے اپنی”ٹور“ بنا سکیں, اور آج بھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ کام کرتے ہیں مگر مجھے بتاتے نہیں کہ مبادا میں اس کارکردگی کو خبر کی زینت بنا نہ ڈالوں۔
عمومی تاثریہ بھی ہے کہ افسران زمین پہ کام تو کرتے نہیں مگر میڈیا پہ واہ واہ کے شوقین رہتے ہیں ان کے برعکس ٹی ایم او لورہ ملک فراست اعوان ستائش سے دور بھاگتے ہوئے صرف کام پہ فوکس رکھنا چاہتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ لورہ کا نقشہ بدلنے میں کامیاب نظر آتے ہیں, میرا ذاتی مشاہدہ تو ہمیشہ یہ رہا کہ افسران اپنے دفتر میں ”کرسی” گھماتے رہتے ہیں اور ماتحت عملہ فیلڈ میں جان مارتا رہتا ہے اور ستائش افسران کے حصے میں آتی ہے تاہم اس کے برعکس ملک فراست اعوان فیلڈ میں نظر آتے اور کام کے لحاظ سے انہوں نے چائنیز کو بھی مات دینے کی ٹھان رکھی ہے, ماتحت عملے کی کمی کی وجہ سے وہ دفتری اوقات کے بعد بھی ایک شفیق انسان کی طرح اپنے سٹاف سے کام کرواتے ہیں اور ٹی ایم اے لورہ کا عملہ بھی ماتھے پہ شکن لائے بغیر ان کے ساتھ کام میں جت جاتا ہے۔
اہلیان تحصیل لورہ کی خوش بختی ہے کہ انہیں ایک ایسا افسر ملا ہے جو کچھ کرنا چاہتا ہے ورنہ ماضی میں بھی ایک ٹی ایم او صاحب یہاں براجمان رہے ہیں جن کا لورہ آنا بھی کھبی کھبار ہوتا تھا ان کے برعکس آج ٹی ایم او کا دفتر ہمہ وقت کھلا رہتا ہے خیبر پختون خواہ کے لوکل گورنمنٹ میں کارکردگی کے لحاظ سے ٹی ایم اے لورہ کا گراف بہت اوپر ہے مگر شاید ہمیں اندازہ نہیں کیونکہ کیڑے نکالنا تو ایک فطرتی عمل ہے بجائے ایسے بیوروکریٹ کی حوصلہ افزاء کرنے کے ہم حوصلہ شکنی پر اتر آتے ہیں اگر ٹی ایم اے لورہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو وہ لورہ اور لورہ کے عوام کی بہتری کے لیے ہوگا افسران آج یہاں ہیں تو علم نہیں کل کلاں کہاں ہونگے مگر ایک اچھے آفیسر کے کام ہمیشہ بولتے ہیں, ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ملک فراست اعوان لورہ میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا ایک روشن چہرہ ہیں۔ملک فراست اعوان تو وہ قرض بھی ادا کر رہے ہیں جو ان پہ فرض بھی نہیں ہے مگر لورہ کے لوگوں کی بہتری کے لیے وہ یہ فرض بھی ادا کر رہے ہیں۔ایسے میں اہلیان تحصیل لورہ کو چاہیے کہ ایسے افسر کے ہاتھ مضبوط کریں اور اس دھرتی کو نکھاریں ورنہ کل کلاں کوئی ”ڈنگ ٹپاو” ٹائپ کا افسر آ گیا تو ہر الجھن کو سلجھانے کے بجائے ”مٹی پاؤ ”پالیسی چلے گی جس کا سراسر نقصان اس نومولود تحصیل کو ہی ہوگا…..