سیاحت کی ترقی کسی علاقے کی خوبصورتی اور امن کے ساتھ ساتھ اس کے میزبانوں کی اخلاقی و ثقافتی تمیز،تہذیب وتمدن اور اعلیٰ روایات کے ساتھ منسلک ہے۔
جولائی 2017 میں والدہ کی بیماری کے پیشِ نظر ضلع شانگلہ کی تحصیل مارتونگ کے لیے سوات اور پشاور ڈویژن کے انجان راستوں پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ سوات ڈویژن ان دنوں دہشت گردی کی تاریک زندگی کے بعد روشنیوں کی طرف مڑ رہا تھا۔
فخر تحصیل لورا محترم راجہ عبدالصبور خان، ان دنوں شانگلہ پولیس کے ضلعی سربراہ تھے اور ان کی سربراہی میں ماشاءاللہ شانگلہ پولیس کا سائلین و مہمانوں کیساتھ رویہ اور حسن سلوک ایسا تھا کہ لگتا نہیں تھا کہ یہ بھی پاکستان کی پولیس ہے۔چہرے پر مسکراہٹ سجھائے بہترین اخلاق کیساتھ “ہر دم تیار کامران ہیں ہم” کے مصداق جوان اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے تھے۔ سوات ڈویژن کی سیاحت کی ترقی میں سیکورٹی اداروں کے رویے کا بڑا عمل دخل ہے۔ لوگ بھی اس اخلاقی تصویر کا نمونہ ہیں۔ یقین جانیے تین دنوں کے اس سفر میں کیا پولیس چوکیاں، کیا فوج کی چیک پوسٹیں، کیا رہائشی ہوٹل اور کیا دوسرے کاروبار، اخلاقیات کا موازنہ اگر ہمارے علاقوں(مری، گلیات ،لورہ، ناران کاغان) سے کیا جائے تو “گستاخی معاف اور جان کی امان پاؤں” تو
ہمارے علاقوں میں سیاحت ایک بدتمیزی و بدتہذیبی کے مجموعے کا نام بن چکا ہے۔ مری کی سیاحتی ثقافت تو ہر روز نئے نئے گل کھلانے پر تلی ہوئی ہے پورے پاکستان کے لوگ بڑی خوشی اور چاہت سے ہمارے علاقوں کا رخ کرتے ہیں لیکن واپسی پر ہماری “بدتمیز میزبانی” کے چرچے سرعام ہوتے ہیں۔ہمارے سیاحتی مقامات تو لوٹ مار اور طوفان بدتمیزی کی آماجگاہ بنتے نظر آ رہے ہیں۔ مری میں تو برف کے بھالو کیساتھ تصویر بھی سینکڑوں روپوں میں بنائی جاتی ہے اور اگر گھوڑا کسی سیاح کی تصویر میں انجانے سے آ جائے تو پیسے دے کر جان چھڑانی پڑ جاتی ہے۔۔ ہوٹل اور ریستوران والے تو بس ہر دن کو آخری دن سمجھ کر لوٹ سکو تو لوٹ لو والا فارمولا اختیار کرتے ہیں۔ مری، گلیات ،سرکل لورہ و سرکل بکوٹ ہماری ثقافتی یکسانیت اور روایات کے امین ہیں لیکن “بدتمیز میزبانوں” کا داغ ہمارے دامن پر لگ گیا ہے۔
سرکل لورہ و گلیات بھی “بدتمیز میزبانی” کے فروغ میں پوری طرح ملوث ہیں۔ تحصیل لورا میں اہلیان لورہ کا رویہ بھی کوئی خراج عقیدت پیش کرنے کے قابل نہیں ہے۔لورہ بازار کے تاجروں کی لوٹ مار توبہ توبہ۔
لسری گوشت کے بہاؤ چھچھڑے ڈال دینا، پورے پیسے لے کر آدھا سامان جیپوں پر لاد دینا، مجبور لوگوں کی قیمتی اشیاء کو کم نرخوں پر خریدنا، قسطوں پر اشیاء کی فراہمی کے نام پر عوام کا معاشی استحصال، تھانے میں کام کے سلسلے میں مدد کو کیش کروانا، پٹواری سے فرد کے بدلے پٹواری کے کھانے کے بہانے۔ بس میں بیٹھی خواتین کو سبزی اور فروٹ سونے کے بہاؤ دینا کیوں کہ ان کی بس نکل گئی تو ڈبے والوں کے کرائے کون بھر سکتا ہے۔
پورے پاکستان میں ہمارے علاقوں “مری و گلیات ھزارہ” کو بدتمیز و بداخلاق کہا جاتا اور مہمان نواز نہیں سمجھا جاتا اور سچ یہ ہے کہ ہم سب مختلف واقعات کے عینی شاہد بھی ہو سکتے ہیں۔
انھی واقعات میں آپ لورہ بازار میں کاروباری بدعنوانی اور بد اخلاقی کیساتھ ساتھ ماضی قریب کے لڑائی جھگڑوں کو بھی شامل کر لیں۔اسلام آباد اور مدینہ کیش اینڈ کیری جیسے بڑے کاروبار اور مزید سرمایہ کار حضرات کی مدد کے لیے اہلیان تحصیل لورہ کو بالعموم اور لورہ والوں کو بالخصوص خندہ پیشانی کو اپنانا ہوگا۔ دل بڑا کرنا ہو گا۔ مہمانوں کو عزت دینا ہو گی۔ تاجروں کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے۔ تھانے تک رسائی کو آسان اور یقینی بنانا ہو گا۔ مہمانوں(مرد و خواتین) کو مکمل تحفظ کا احساس دلانا ہو گا۔
مہمان اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتے ہیں اور اعلیٰ اخلاق کیساتھ مہمان نوازی آپ کے گھر گلی محلے علاقے سے مصیبتوں ،پریشانیوں کو ختم کرنے کا موجب بنتی ہے۔لورا بازار کے تاجر حضرات خصوصاً روز مرہ کی ضروریات زندگی کی اشیاء والے دوکانداروں کو بداخلاقی کیساتھ ساتھ اپنی لوٹ مار پر بھی غور کرنا ہو گا ورنہ یہ بیلچوں کے ساتھ کھانے والوں کو پھر چمچ جتنا بھی نصیب نہیں ہو تا۔
مری و ہزارہ کے لوگوں سے گزارش ہے کہ ہمارے علاقوں میں آئے مہمانوں سے ہر طرح سے اخلاق سے پیش آئیں۔ ان کی جیبوں پر نظر رکھنے کے بجائے ایسا رویہ رکھیں کہ وہ اپنے علاقے میں ہمارےاچھے اخلاق کی گواہی دیں۔ اگر ہمارے مہمانوں نے ہمارے علاقوں کی سیر و تفریح چھوڑ دی تجارت کی غرض سے دوسرے علاقوں کا رخ کر لیا تو پھر ہماری بدتمیزی و بداخلاقی ہمارے ساتھ ہی رہ جائے گی پھر مہمان اپنی رحمتیں اپنے ساتھ لے جائیں گے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
