دنیا بھر کے دانشور سر دھڑ کی بازی لگانے کے باوجود پاکستانی قوم کے بارے میں حتمی رائے قائم نہیں کر سکے ہیں شاید کرہ ارض پہ ہم واحد وہ قوم ہے جو کہ ہر سیدھا کام بھی الٹے طریقے سے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
عصر حاضر میں سوشل میڈیا نے دنیا کو سچ مچ گلوبل ویلیج (گاوں) میں تبدیل کر دیا ہے جس طرح گاوں میں ہر ایک کی ٹوہ میں رہنے والے شخص کو گاوں کے ہر فرد کے گھر میں آنے جانے والے مہمانوں کے بارے میں مکمل معلومات ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح سوشل میڈیا پہ منٹوں میں دنیا کے ہر کونے کی خبر دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے۔
سوشل میڈیا کی دنیا میں دیکھا جائے تو بالخصوص جنوبی ایشیاء میں فیس بک مقبول ترین ایپ ہے جہاں اللہ معاف کرے ایسے ایسے دانشور موجود ہیں کہ منٹوں میں نت نئی فلاسفی سامنے رکھ کے دنیا بھر کے عامل دانشوروں کو حیرت کے سمندر میں غوطے لگانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
دنیا نے اس سوشل میڈیا کو مثبت انداز میں لیا اور اپنے لیے ترقی کی راہیں کھولیں،جاپان نے کونسی نئی مشینری ایجاد کی، اس مشینری کے فوائد کیا ہیں،تھوڑی سی محنت کے ساتھ اس کے استعمال تک کی مکمل جانکاری مل جاتی ہے،تعلیم و تربیت, زراعت, سائنس الغرض ہر چیز میسر ہے تاہم جس طرح میں نے پہلے کہا کہ شاید ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جو سیدھا کام بھی الٹے انداز میں کرنے کے عادی ہیں. ہم نے اس فیس بک کو اپنے ذہنی خلفشار کونکالنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔جہاں ایک دوسرے کی کردار کشی, بہتان تراشی نے عروج پکڑا وہاں اپنے پسند کے لیڈر کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے اور ناپسندیدہ لیڈر کی کردار کشی کے ایسے طریقے متعارف کروائے کہ کسی روز اس کا از سر نو جائزہ لیں تو اپنا ہی سر شرم سے جھک جائے۔بڑے بزرگ کہا کرتے تھے ناں کہ ”بیٹا برائی کا انجام بھی برا ہی ہوتا ہے ”سو یہاں برائی کی فصل اچھی کیسے نکل سکتی ہے۔آج نتیجا یہ نکلا کہ شاید ہی کوئی سیاست دان, جج جرنیل جرنلسٹس یا مولوی ایسا ہو جو ان طنز کے تیروں سے محفوظ رہا ہو،اور شاید ہی کوئی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ایسا نکلے جس کے دوست احباب،عزیز رشتہ اس سے خوش ہوں۔
ملکی سیاست کا جائزہ لیں تو ایک وقت تک کہ جو شخص جتنا گلہ پھاڑ کے چیختا چلاتا ہو,مخالفین کو گالم گلوچ کرتا ہو وہی بڑا لیڈر تصور ہوتا تھا وہ وقت گیا جب سیاست کے اس تالاب میں نوابزادہ نصراللہ مرحوم, میر بلخ شیر مزاری, ولی خان،مفتی محمود, ذوالفقار علی بھٹو, قاضی حسین احمد مرحوم یا ان کی قبیل کے راہنماء موجود تھے جو کہ اپنے سخت ترین مخالفین کو آپ جناب کے القابات کے ساتھ پکارتے تھے اور وہی سیاست کا حسن و تہذیب تھی۔وہ سیاست دان کیا دفن ہوئے اس ملک سے مہذب سیاست کی بھی تدفین ہو گئی اب ”اوے ”سیاست کا کلچر پروان چڑھا ہے ایسے میں سوشل سیلز نے ملکی سیاسی کلچر کی ایسی کی تیسی کر دی۔جس کی لپیٹ میں اب صرف سیاستدان نہیں رہے بلکہ بڑے بڑے اداروں کے سربراہان،ذمہ داران،ملکی وقار کی علامت سمجھی جانے والی شخصیات بھی لپیٹ میں آ گے،وہ جن کا خام خیال تھا کہ یہ آگ صرف سیاستدانوں کے گھروں تک پہنچے گی،اب وہ آگ ان کے اپنے گھروں تک جا پہنچی ہے۔
بقول راحت اندروئی
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکاں تھوڑی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی شخص جو کہ سوشل میڈیا پہ اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے جھوٹ فریب, بہتان تراشی سے بھی اگلے نکل کے گالم گلوچ تا جا پہنچا ہے کہ اس کا پسندیدہ لیڈر اس بات سے واقف ہے کہ اس کے فلاں ورکر نے اس کے لیے اپنے ماں باپ, عزیز رشتہ دار, کنبہ گاوں والے چھوڑ دیے ہیں, شادی غمیاں چھوٹ گئیں, قبر کھاٹ چھوٹ گیا, حقہ پانی بند ہو گیا؟یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا, اپنے 22 سالہ صحافتی کیریئر کے دوران ایسے ایسے ”اچے شملے”والے لیڈران کو گیدڑ بنتے دیکھا, قسمیں قرآن اٹھانے والوں کو وفاداریاں بدلتے دیکھا, بھرے جلسے میں اپنے سپورٹرز سے جھوٹ بولتے دیکھا اور کافی شاپس یا بند کمروں میں بظاہر سخت ترین مخالفین کو ”جھپیاں ”مارتے دیکھا ہے کہ اب ان اندھی تقلید کرنے والے پرستاروں پہ ہنسی نہیں بلکہ ترس آتا ہے۔
بالخصوص تحصیل لورہ کے سوشل میڈیا کا تقابلی جائزہ لیں تو یہاں دلیل کے بجائے پٹواری اور یوتھیاز کے نام پہ ایکدوسرے کی توہین نہیں بلکہ تذلیل کھلے عام ملتی ہے اور یہی کسی معاشرے کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتی ہے. بالفرض محال میں وزیراعظم عمران خان کا سپورٹر ہوں اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے سخت خلاف ہوں تو میرے زہریلے الفاظ براہ راست شریف فیملی تک نہیں پہنچتے مگر یہاں پہ موجود انکے فالوروز وہ ساری کردار کشی اپنی ذاتی تذلیل تصور کرتے ہوئے وہ غم و غصہ اپنے دل میں رکھیں گے اور اسی طرح اگر میں مسلم لیگ ن کا سپورٹر ہوں اور تحریک انصاف کی کردار کشی کرتا ہوں تو انکے فالورز بھی یہی ردعمل دینگے۔
جب ہم یہ جانتے ہیں،سمجھتے ہیں تو جان بوجھ کے ایک دوسرے کی دل آزاری کیوں کرتے ہیں. یہ مثال تو اس گاوں (گلوبل ویلیج) کی ماسی پاپھن کٹنی جیسے ہو گئی جس کا کام ہی آگ لگا کے گھروں کو تباہ کرنا ہوتا تھا. اب یہ سوچنا ہم نے ہے کہ کہیں اپنی کمی عقلی کم فہمی میں ہم اپنے لیے گڑھا تو نہیں کھود رہے۔
بقول راحت اندوری
جو لوٹتے ہو تو لوٹ لو مگر خیال رہے
تمارا گھر بھی میرے گھر کے بعد آئے گا…
تو سوشل میڈیا کے اس گلوبل ویلیج کو مثبت انداز میں استعمال کیوں نہ شروع کیا جائے. تحقیقی مقالے, جدید دنیا کے تجربات سے استفادہ کیوں نہ لیا جائے؟آج کے نوجوان اگر اس عفریت سے نکلنے میں کامیاب ہوگے تو ترقی کی منازل ہمارے انتظار میں ہونگی اور اگر اسی طرح ہم ایک دوسرے کی کردار کشی کو وطیرہ بناتے رہے تو تباہی سے ہمیں بچانے کوئی نہیں آئے گا۔۔۔۔
