” نظریہ برائے فروخت”مکتوب دبئی عطاء الرحمن عباسی

مزار قائد پر ہونیوالےجلسے کے مارکیٹنگ پوسٹرز اور کوریج دیکھ کر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پی ڈی ایم کی تمام سیاسی جماعتوں کے اپنے نظریات کیا تھے۔ قائداعظم کا نظریہ کیا تھا اور کیسے برصغیر پاک وہند کے اس عظیم شخصیت نے اپنے نظریات کا پہرہ دے کر دنیا کی پہلی اسلامی جمہوری ریاست کی بنیاد رکھی۔ پی ڈی ایم کے قائدین کا مزار قائد کی بے حرمتی بے ادبی کرتے دیکھ کر نظریہ کس بلا کا نام معلوم ہوتا ہے۔سیاسی جماعتوں کے نظریات انتہائی سستے داموں دستیاب نظر آ رہے ہیں لیکن مذہبی قائدین کے نظریات کی خرید وفروخت بھی ارزاں نرخوں پر جاری ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ مذہبی نظریات کی بنیاد میں کہیں نہ کہیں مذہب کے کسی ایک یا مکمل آفاقی اصول کی بنیاد ضرور شامل ہوتی ہے جیسا کہ جمیعت علماء اسلام کے دستور میں طے ہے۔ “جمیعت کی دعوت جمیعت کا پیغام خدا کی زمیں پر خدا کا نظام”.
جب مولانا فضل الرحمان صاحب امریکہ کی افغانستان میں مبینہ شکست کی وجہ “جمیعت کے نظریہ’ کو قرار دے کر پاکستانی فوج کے خلاف دھمکی آمیز زبان استعمال کرتے ہیں تو وہیں بلاول بھٹو کی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو نے مولانا فضل الرحمان کے “طالبان نظریات” کے خلاف اپنی جان قربان کرتی نظر آتی ہیں۔ پھر بلاول بھٹو اپنی والدہ کے قاتل نظریات کے ساتھ کیوں کر اتحاد کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔
قوم پرست جماعتوں کے قائدین کے نظریات “اپنے مفادات” پاکستان کی قیمت پر بھی حاصل کرنے کے متمنی ہیں اور اس میں محمود خان اچکزئی اور محسن داوڑ وغیرہ کا اصل ہدف پاکستانی فوج کے علاؤہ کون ہو سکتا ہے جو ہمیشہ ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہے اور ہزاروں جانوں کی قربانی دے چکی ہے۔
بلوچستان کے نوابوں کا نظریہ صرف اور صرف اپنا پیٹ بھرنا ہے۔ اپنے بچوں کی عیاشیوں کے لیے “عوام کے حقوق” کے نام پر جمع کی گئی حکومتی امداد کا کوئی حساب نہیں اس کے بدلے میں بلوچستان کی عوام تو رل گئی لیکن نوابوں کی بھوک ختم نہیں ہوئی۔
رہی بات “مسلم لیگ ن” کی تو اس جماعت کے قائد سمیت زیادہ تر رہنماؤں کا نظریہ خود ان کی تقریروں کا ساتھ نہیں دے رہا ہوتا۔ پہلے پہل تو پیپلز پارٹی کو ملک دشمن اور سیکورٹی رسک قرار دے کر حکومت حاصل کی پھر میثاق جمہوریت کے نام پر پی ڈی ایم کی تمام 11 پارٹیوں کو کھاؤ اور کھانے دو کے اصول پر حکومت میں شامل رکھا۔ مسلم لیگ ن کے ایک بڑے رہنما تو عوام کے پیسے آصف زرداری کے پیٹ سےکر نکال کر عوام کے قدموں میں نچھاور کرنے پر بھی تل گئے تھے لیکن بعد میں وہی پیسے مل بیٹھ کر کھانے پر رضامند ہو گئے۔ان موجودہ حالات میں ایک نیا نظریہ جنم لیتا دکھائی دے رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین احتساب سے مستثنیٰ ہیں اور انصاف کے کسی نظام کے پابند نہیں ہیں۔قائدین کو عوام کا پیسہ لوٹنے پر اس حد تک استثناء حاصل ہے کہ وہ ایک جونک کی مانند پاکستان کے جسم کا سارا خون ہی کیوں نہ پی جائیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہ ہو اور یہی پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کا اصل نظریہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں