خون دل سے جو چمن کو بہار سونپ گیا
اے کاش ان میں خود کو شمار کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرنل سہیل عابد شہید
وطن عزیز کو دہشت گردی کے عفریت سے چھٹکارا دلانے کے لیئے پوری قوم اور افواج پاکستان سیسہ پلائی دیوار کی مانند دھرتی ماں کے دشمنوں کے سامنے کھڑی ہے،جنوبی و شمالی وزیر ستان ہو یا بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑ،پنجاب کے میدان ہوں یا کراچی کی گنجان آبادی قوم کی پشت پناہی سے سیکیورٹی فورسز کامیابی کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرتے ہوے ملک کو محفوظ بنانے میں مصروف عمل ہیں،آپریشن ردالفساد آخری مراحل میں ہے جہاں بچے کھچے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا رہا ہے، دہشت گردی کے خلاف یہ کو ئی معمولی اور آسان جنگ نہیں تھی بلکہ سرحد پار سے ایجنڈا لینے والے ان دہشت گردوں کے خلاف چومکھی لڑائی ہے جس میں ہمیں اپنے دشمنوں کی پہچان بھی کرنے میں مشکلات درپیش تھیں، دہشت گرد صف آراء نہیں تھے بلکہ بزدلوں کی طرح چھپ کے وار کرنے کے عادی تھے،پاک فوج کی قیادت نے مٹھی بھر بزدل دشمنوں کے صفایا کا فیصلہ کیا تو قوم کی میٹھی نیند کے لیئے وطن کے سجیلے جوان دھرتی ماں پہ قربان ہونے لگے،دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں مشکل ترین محاذوں پر پاک فوج کے جوان و افسران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں،ایسی ہی ایک قربانی کے لازوال داستان پاک فوج کے کرنل سہیل عابد شہید نے رقم کی ہے جنہوں نے اپنے چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہد کی تکمیل کے لیئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا،مئی 2018 میں ملٹری انٹیلجنس کے کرنل سہیل عابد شہید نے کلی الماس کے اس محفوظ ٹھکانے کا پتہ لگایا جہاں انسانیت کے قاتل بیٹھ کے منصوبہ بندی کرتے تھے۔

کرنل سہیل عابد شہید مشن کی بالواسطہ نگرانی بھی کر سکتے تھے لیکن پاک فوج کی اعلی روایات اور اس دھرتی کی محبت میں مشن کی خود قیادت کر رہے تھے۔ انکی اپنی لکھی ہوئی نظم ان کے بے لوث جذبے کی گواہ ہے:-
”میری وفا کا تقاضہ کہ جاں نثار کروں
اے وطن تری مٹی سے ایسا پیار کروں
میرے لہو سے جو تیری بہار باقی ہو
میرا نصیب کہ میں ایسا بار بار کروں
خون دل سے جو چمن کو بہار سونپ گیا
اے کاش ان میں خود کو شمار کروں
مری دعا ہے سہیل میں بھی شہید کہلاوں
میں کوئی کام کبھی ایسا یادگار کروں۔۔“
جذبہ شہادت سے سرشار کرنل سہیل عابد نے اس مشن کو تکمیل تک پہنچایا اور اس میں وہ کامیابی حاصل کی جس کی تمنا طویل عرصے سے کی جا رہی تھی،کرنل سہیل عابد نے دہشت گردوں کے اس سرغنہ کو کیفر کردار تک پہنچایا جو سیکیورٹی اداروں کے لیئے درد سر بنا ہوا تھا،بالخصوص کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے سینکڑوں شہریوں کے قتل کا ذمہ دار وقرار دیا جاتا ہے،کالعدم تنظیم کے سرغنہ کے ساتھ ساتھ دو افغان دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا ،بادینی کے ساتھ مارے جانے والے افغانی دہشت گردوں کی موجودگی اس امر کی غمازی ہے کہ پاکستان میں کی جانی والی دہشتگردی کے تانے بانے کس طرح سرحد پار افغانستان سے جا ملتے ہیں اور وہاں سے دہلی تک جاتے ہیں،کرنل سہیل عابد شہید کی قربانی سے کوئٹہ کی ہزارہ برادری تو محفوظ ہو گئی مگر قوم کا ایک بہادر سپوت ہم سے بچھڑ گیا،کرنل راجہ سہیل عابد کی قربانی دنیا کی انکھیں کھولنے کے لیئے کافی ہے جہاں پاکستان کے خلاف تعصب کی عینک ہے جس کے شیشے بھارت نواز ہیں،دنیا کو محفوظ بنانے کے لیئے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے،دہشت گردوں کے خلاف اس جنگ میں پاکستانی فوج ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔اور اس جنگ میں پاک فوج کے سپاہی سے لے کر جنرل تک خود لڑ رہے ہیں،دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار پاک فوج کے افسران ہوں یا جوان ان کے جسموں پر لگی گولیاں دنیا کو چیخ چیخ کے بتانے کے لیئے کافی ہیں کہ یہ ”فرینڈلی“ فائرنگ نہیں ہوتی بلکہ جان جوکھوں میں ڈال کے وطن کے باسیوں کو محفوظ بنانے کے لیئے پاک فوج کے جوان گولیوں کے لیئے اپنی چھاتیاں پیش کرتے ہیں،کلی الماس آپریشن میں جس دہشت گرد کو ہلاک کیا گیا ہے وہ کوئی معمولی دہشت گرد نہیں تھا بلکہ دہشت گردی کا سرغنہ تھا۔یہ وہ گروہ تھا جو بلوچستان میں ہزاروں افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا تھا، کوئٹہ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں تھے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق یہ گروہ اب تک صرف کوئٹہ کے علاقے میں 100سے زائد معصوم انسانی جانیں لے چکا ہے،

پاکستان مجموعی طور پر دہشت گردوں کے چنگل سے نکل رہا ہے لیکن کوئٹہ میں یہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی،کوئٹہ میں سڑکوں پر بیٹھے ہزارہ برادری کے مظلوموں سے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وعدہ کیا تھا کہ دہشت گردوں کا مکمل پیچھا کیا جائے گا اوران کا پاکستان سے صفایا ہو گا،اور آج پاک فوج کے سربراہ کا وعدہ پورا ہوا اور کرنل سہیل عابد نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک شاندرا آپریشن میں دہشت گردوں کے سر براہ کو اس کے ساتھیوں سمیت مار ڈالا۔
کرنل راجہ سہیل عابد کی قربانی قوم پر قرض ہے ،قربانی کا یہ جذبہ صرف پاکستانی قوم میں ہے، پاک فوج کے جوان سرحدوں پر اپنے ملک اور قوم کی خاطر اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔اس وطن کی خاطر اب تک کئی شہید اپنی جان کا نظرانہ پیش کو چکے ہیں۔اور ان شہیدوں میں بڑی تعداد جوانوں کی ہے۔جو اپنے ملک کی خاطر جان دیتے ہوئے کچھ بھی نہیں سوچتے۔پاکستان میں امن قائم کرنا ہی ان جوانوں کی اولین رجیح ہوتی ہے۔ان شہید جوانوں کی میت جب گھر پہنچتی ہے تو ان کے اہل خانہ کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔اور وہ اپنے بیٹے کی ملک کے لیے دی گئی قربانی اور اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

اسی حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں شہید جوان کے والد کی ہمت اور حوصلہ دیکھ کر پوری قوم کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جب پاک فوج کے کرنل سہیل عابد کی میت گھر پہنچتی ہے تو ان کے والد تابوت کو رکوا دیتے ہیں۔اور پھر اس تابوت میں لپٹے اپنے بیٹے کی میت کو سلیوٹ پیش کرتے ہیں۔اور پھر اس تابوت کوایک بوسہ دیتے ہیں۔جس کے بعد وہاں موجود باقی لوگ شہید جوان کے والد کی ہمت کو سراہتے ہوئے نعرہ تکبیربلند کرتے ہیں،بلاشبہ یہ خاصا پاک فوج کے جوانوں اور ان کے اہلخانہ میں ہی ہے۔پاک فوج کے کرنل سہیل عابد عباسی کی نماز جنازہ پہلے وہاڑی کے نواحی گاؤں 91 ڈبلیو بی میں ادا کردی گئی۔ بعدازاں آرمی قبرستان راولپنڈی اور ان کے آبائی گاؤں اسلام آباد کے نواحی علاقے بوبڑی میں ادا کی گئی جہاں ان کے آبائی قبرستان میں ان کی مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی۔ نماز جنازہ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت دیگر اعلیٰ فوجی و سول افسران اور شہید کے عزیز و اقارب نے شرکت کی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آرمی قبرستان میں نماز جنازہ کے موقع پر کرنل سہیل عابد کے بیٹے محمد احمد سالارسے ملاقات کی اور اسے اپنے گلے لگایا،شہید کی میت کے پاس پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اور مرحوم کے بیٹے محمد احمد سالارکی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو ئی اس تصویر میں سپہ سالار کی انکھیں بھی اپنے جوان کو تابوت میں دیکھ کے نمناک تھیں،سپہ سالار نے خاندان کے سربراہ کی طرح مرحوم کرنل سہیل عباسی کے معصوم بیٹے کو سینے سے لگایا،یہ ایک تصویر ہزاروں الفاظ پر بھاری ہے، یہ تصویر چیخ چیخ کے کہہ رہی ہے کہ دونوں کا غم ایک ہی ہے،آرمی چیف نے گھر کے سربراہ کا کردار ادا کیا اس تصویر کو دیکھنے والی ہر انکھ اشکبار ہے،اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ جب بھی میرا کوئی سپاہی شہید ہوتا ہے مجھے لگتا ہے جیسے میرے جسم کا ایک حصہ جدا ہو گیا ہے اور جس دن کوئی فوجی شہید ہوتا ہے تو وہ رات گزارنا میرے لیے بہت مشکل ہوتا ہے، ہم وطن کے دفاع کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی کے لیے پرعزم ہیں۔

کرنل راجہ سہیل عابد عباسی کا تعلق وہاڑی کے نواحی گاؤں 91 ڈبلیو بی سے ہے۔ ان کے چچا میجرظفراقبال بھی جام شہادت نوش کرچکے ہیں جب کہ دادا احمد حسن عباسی جنگ عظیم دوم کے دوران مصرمیں شہید ہوئے۔ کرنل سہیل عباسی نے پسماندگان میں بیوہ، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا محمد احمد سالار چھوڑا ہے۔شہید کرنل سہیل عابد کے والد راجہ عابد کا جذبہ قابل دید ہے،راقم نے جب ان سے جوان بیٹے کی شہادت پر تعزیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے نے دھرتی ماں کا حق ادا کرکے میرا سر فخر سے بلند کر دیا ہے،راجہ عابد جیسے والدین جس قوم میں ہوں اس قوم پر کوئی دہشت گرد اپنا ایجنڈا مسلط نہیں کر سکتا،پاک فوج کے جوانوں کے ایسے جری والدین ہی یہ عزم و حوصلہ دیتے ہیں کہ ہمارے جوان اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے لیئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں،مرحوم کے بیٹے محمد احمد سالار جسے ان کے نانا راجہ فدا نے باپ کے شہادت کے بعد ”سالار قوم“ کا خطاب دیا ہے کا حوصلہ قابل دید تھا،پانچویں جماعت میں زیر تعلیم محمد احمد سالار جس کی عمر اپنے شہید بابا کی گود میں کھیلنے کی تھی عزم و استقلال کی علامت بنا سب سے بغلگیر ہو رہا تھا،غیروں کے جھانسے میں آ کے ملکی ا داروں کے خلاف زہر اگلنے والے کاش شہید کے بیٹے کا استقلال بھی دیکھ لیتے۔کرنل راجہ سہیل عابد شہید نے پرائمری سے انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم وہاڑی سے حاصل کی جبکہ گریجویشن وفاقی دارلحکومت کے ایچ نائن کالج سے کی 1990میں 90پی ایم اے لانگ کورس سے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی ،
مرحوم کے والد راجہ عابد وہاڑی کے نواحی گاؤں 91 ڈبلیو بی کے نمبردار ہیں،چھوٹے بھائی راجہ شہزاد یونین کونسل پانچ کے ممبر ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بھائی راجہ شیراز گل ایڈوکیٹ وفاقی دارلحکومت میں ہیں،مرحوم کا آبائی گاؤں بوبڑی بہارہ کہو ہے جہاں ان کی تدفین کی گئی ہے بوبڑی گاؤں کو سابق وزیر داخلہ سینٹر اے رحمن ملک کی اپیل پر پنجاب حکومت نے شہید کرنل سہیل راجہ کے نام سے منسوب کرنے کا فیصلہ کیا ہے،انگوری روڈ کو بھی وطن کی ناموس کی خاطر جان نچھاور کرنے والے کرنل راجہ سہیل عابد کے نام منسوب کیا جا رہا ہے،کرنل سہیل عابد نے جان کا نذارنہ دیا اور اس آپریشن میں ہائی پروفائل دہشت گرد سلیمان بادینی بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ دہشتگرد سلمان بادینی لشکر جھنگوی بلوچستان کا سربراہ تھا اور ہزارہ برادری اور پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔ سلمان بادینی کے ساتھ دو مزید خودکش بمبار بھی اس کامیاب آپریشن کے نتیجے میں جہنم واصل ہوئے۔