امریکی ناکامیوں نے خطے میں پاکستان کی ذمہ داریاں بڑھادیں،اڑھائی ہزارکلومیٹرطویل سرحد کو محفوظ بنانے کاسلسلہ جاری

افغانستان میں امریکی ناکامیوں نے جس طرح خطے کو عدم استحکام سے دوچارکردیاہے اس کے پیش نظرپاکستان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔خصوصاً پاک افغان بارڈرکو محفوظ بنانابے حد اہمیت اختیارکرچکاہے۔گزشتہ 16سال سے غیر ملکی افواج نے افغانستان کی جنگ میں شکست کا منہ ہی نہیں دیکھابلکہ انتظامی اعتبارسے بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں کی۔

ان حالات میں پاکستان کو مغربی سرحدپر ایک غیر معمولی ٹاسک ملاہے جس کاحجم اس وقت دنیا بھرمیں اپنی نوعیت میں سب سے بڑاہے۔اڑھائی ہزارکلومیٹر طویل پاک افغان سرحدپر باڑلگانے کے علاوہ نگران چوکیاں اور قلعے بنانے کا عظیم الشان منصوبہ اس وقت زیر تکمیل ہے،جان جوکھوں میں ڈالتے ہوئے جس طرح دفاع وطن کے لیئے جانوں کے نذارنے دینے کے لیئے ہمہ وقت تیار دھرتی ماں کے سپوتوں نے اس منصوبے پر کام کیا اس نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے،ایک ایسی سرحد جس کے پار کوئی باقاعدہ حکومت نہیں،جہاں دندناتے ہوئے دہشت گرد جب چاہتے گولیوں کی بوچھاڑ شروع کر دیتے،سخت موسم اور مشکل ترین پہاڑی سلسلے پر کام کرنا کو آسان نہ تھا مگر افواج پاکستان کے جوانوں اور انجنیئرز نے یہ کارنامہ سر انجام دے کر دکھا دیا ہے۔

اس وقت پاک فوج مغربی سرحدپر بین الاقوامی معیار کے منصوبے پر کام کررہی ہے۔اس منصوبے کے تحت ان سرحدوں پرصدیوں سے جاری صورت حال کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔مغربی سرحدہمیشہ سے آزاداور کھلی ہے لیکن اب اسے عالمی معیار کے مطابق ایک میکنزم کے تحت لایاجارہاہے جو بارڈرکنٹرول کے مسلمہ اصولوں پر تشکیل دیاگیا ہے۔اس طرح سرحدوں سے غیر قانونی آمدورفت ختم ہوسکے گی۔منصوبے کے تحت سرحدپر 750قلعے تعمیر جا رہے ہیں جن کا درمیانی فاصلہ ڈیڑھ سے 3کلومیٹر ہے۔یہ قلعے آرپارجانے کے تمام راستے بندکرکے صرف قانونی داخلے اور اخراج کی سہولت فراہم کریں گے۔

اس وقت اس طویل ترین سرحد پر 172قلعے تعمیر کیئے جا رہے ہیں۔اس عظیم منصوبے کا دوسراحصہ باڑ کی تنصیب ہے۔2ہزار344کلومیٹر طویل سرحدپر 56ارب روپے کی لاگت سے باڑ لگائی جارہی ہے اور اب تک کافیٰٖٓحصے پر یہ باڑلگ چکی ہے جو باجوڑ،مہمند،خیبر،شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے علاقے کورکرتی ہے،باڑ کے ساتھ تیکنیکی نگرانی کے ذرائع بھی بروئے کارلائے گے ہیں جو عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں،اس کے علاوہ بارڈرچیک پوسٹیں بھی کام کریں گی۔سرحدوں پر واقع سیکڑوں گزرگاہوں کو بند کرکے قانونی راستے بنائے جا رہے ہیں تاکہ وطن عزیز کے دفاع کو ایک طرف ناقابل تسخیر بنایا جا سکے دوسری جانب پڑوسی ملک کو بھی ذمہ داری کا احساس دلایا جائے۔اس منصوبے کے تحت چمن اور طورخم کے راستوں پر بائیومیٹرک شناخت کا نظام مہیاکیا جاچکاہے جبکہ مزید 2کراسنگزغلام خان اور کرلاچی کے مقام پر مکمل کیئے گے ہیں۔سرحدی نگرانی اورتحفظ کے لیے ایف سی کے 73دستے تیارکیے جا رہے ہیں۔

پاک افغان سرحد دونوں ممالک کے لیئے ایک مسئلہ بنی رہی،افغانستان ہمیشہ اپنی ناکامیوں کی ذمہ داریاں پاکستان پر ڈالتا رہا،کھبی اپنا گھر درست کرنا ضروری نہیں سمجھا جبکہ دوسری طرف افغانستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی:را: نے ایک مربوط نیٹ ورک بنا رکھا ہے بالخصوص پاکستانی سرحد کے قریب کا علاقہ ان کا مسکن رہا اور پاکستان میں ہونی والی دہشت گردی کی متعدد کاروائیوں کے تانے بانے بھی یہاں ہی جا ملتے ہیں۔

دوسری جانب امریکہ بہادر اربوں ڈالرز افغانستان میں ڈبو کر بھی اپنی ناکامیوں کا ملبہ ہمارے سر ڈالنے میں لگا ہے اور کہیں کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،ایسے میں افواج پاکستان کی جانب سے اس منصوبے پر تیزی سے کام کرنا بھی افغانستان میں موجود ٹرائیکا کو ناگوار گزرا تاہم پاکستان نے اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس منصوبے پر تیزی سے کام جاری رکھا۔
پاکستان نے خالصتا اپنی ملکی وسائل سے اس عظیم منصوبے پر کام شروع کیا جس کا مقصد نہ صرف وطن عزیز کو محفوظ بنانا تھا بلکہ افغانستان حکومت کی بھی مدد کرنا تھی،سر حد کے آر پار جانے والوں کے لیئے قانونی راستے فراہم کیئے گے ہیں،جنہیں استعمال میں لا کے نہ صرف دونوں ممالک تجارت میں اضافہ کر سکتے ہیں بلکہ سر حد آر پار آنے جانے والوں کا منظم ڈیٹا بھی مرتب کیا جا سکتا ہے۔