کچھ عرصہ پہلے تک سیاست کی انتہا پسندی میں بھی پاکستان یا پاکستانیوں کے لیے اتنا خطرہ محسوس نہیں کیا جتنا کہ اب نظر آتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے نظریات اور ان کے رویوں سے خوف آتا ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ مستقبل میں اقتدار میں شراکت داری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستانیوں پر فرعونیت کا مجموعہ حکومت کرے گا جو ابھی سے ہی اپنے رویہ اور کردار سے اپنے اردگرد کے لوگوں اور منسلک سپورٹرز کیساتھ مالک اور غلام والا سلوک کرتے ہیں۔
جب مریم اورنگزیب ماتھے پر شکن جمائے ، غصیلی آنکھ اور بائیں ہاتھ کی صرف ایک انگلی کے اشارے سے اپنے علاقے کے معتبر کو “اوئے” کہہ کر سائیڈ پر ہونے کا کہتی ہے
جب خیبرپختونخواہ کے ضلع ایبٹ آباد کے محترم جنرل سیکرٹری کو مریم نواز کی گاڑی سے دھکے دے کر اس وقت اتارا جاتا ہے جب وہی گاڑی اس کا بھائی جو سابق ڈپٹی اسپیکر آف پاکستان اور منتخب نمائندہ چلا رہا ہو تو فرعونیت کا عکس کھل کر سامنے آتا ہے۔
جب مریم نواز میڈیا ہاؤسز کو “مہلت دیتی ہوں اور باز آ جائیں” جیسے الفاظ کیساتھ متکبرانہ پیغام بھیج رہی ہوں تو فرعونیت کا گرم مزاج جھلک رہا ہوتا ہے۔
جب مولانا فضل الرحمان ملک کی محافظ فوج کو ترکی کی فوج جیسا سلوک کرنے کے ارادے ظاہر کر کے مجموعی فرعونیت کی تصویر میں اپنا حصہ ڈال رہے ہوں تو آنکھیں حیران کن حد تک ٹھہر جاتی ہیں۔
جب مولانا شاہ احمد نورانی جیسے عظیم عالم کا فرزند ارجمند اویس نورانی پاکستان کے ٹکڑے کرنے میں لگا ہو تو مولانا کا نورانی چہرہ سامنے آتا ہے اور ان کے بیٹے کی ہدایت کے لیے دعا نکلتی ہے۔
جب گانگریسی آباؤاجداد کی پود کھلے عام افغان وطن کا لاگ الاپ رہی ہو اور پھر پیارے پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹنے کے درپے ہو تو سچ میں خوف آتا ہے۔
جب 22 کروڑ پاکستانیوں کی محبوب فوج کو ناک رگڑوانے کی باتیں ہو رہی ہوں
اور
حکومت وقت صرف اپنے بیسیوں ترجمانوں سے “میں نہ مانوں” کا ورد کرتی ہو
تو خوف آتا ہے کہ پاکستانی قوم کا مستقبل ایک آزاد قوم کے بجائے غلام کردار میں بدل جائے گا۔ موجودہ قائدین کا فرعونی مزاج پاکستانی قوم کو کسی بڑی مصیبت میں مبتلا کرنے کی طرف گامزن ہے۔
سیاسی فرعونیت کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ ان سیاسی قائدین نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیوں کو کورونا جیسی وبائی مرض کے حوالے کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
پاکستانی قوم ہوش کے ناخن لے اور اقتدار کے درپے ان خطرناک فرعونوں کو پہچانے اور اپنی آزادی کا تحفظ یقینی بنائے ورنہ اگر یہ سیاستدانوں مشترکہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر نسلوں کو ان کی غلامی سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔
