سینٹر جاوید عباسی نے “پہاڑوں” کی لاج رکھ لی۔کامیاب اننگز کھیل کے عہدے سے سبکدوش۔تحریر اصغر چوہدری

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی ‘کھبی بندہ صحرائی کھبی مرد کوہستانی “پر پورا اترتے ہوئے تحصیل لورہ کے دور افتادہ گاوں ٹائیں سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر جاوید عباسی نے ایوان بالا (سینٹ) میں اپنے چھ سالہ دور کا کامیابی سے مکمل کیا

طیب اردگان سے مصافحہ کرتے ہوئے۔۔

سینٹر محمد جاوید عباسی بالآخر اپنی کامیاب ترین اننگز کھیلنے کے بعد ایوان بالا سے ایک فاتح کی طرح رخصت ہو گے.بطور سینٹر ایوان بالا کی لائبریری میں اچھا خاصا مواد چھوڑ کے رخصت ہوئے ہیں .عجب اتفاق ہے کہ اسی پارلیمانی پریس گیلری کا اہم حصہ ہونے کے باوجود کھبی بھی ان کے ساتھ کھل کے گفتگو کا موقع نہ مل سکا نہ کہیں مل بیٹھ سکے۔ البتہ انکی دھواں دار تقریر سے ہمیشہ مستفید ہوتے رہے گزشتہ 19 سالہ پارلیمانی رپورٹنگ میں ہمیں جہاں مرحوم مشاہداللہ خان کا انداز بیان کھبی بھول نہیں سکتا, حافظ حسین احمد کا طنز و مزاح اور مرحوم ڈاکٹر شیر افگن کے آئینی اور رولز اف بزنس کے نکات پارلیمانی بزنس میں جہاں اپنا مقام رکھتے ہیں وہیں بلوچستان کے بیٹے سابق سینٹر ثناء اللہ بلوچ کی گن گرج اور سابق چیئرمین میاں رضا ربانی کہ مدلل گفتگو گھنٹوں ہمیں صفحے کالے کرنے پہ مجبور رکھتی تھی.

افغان وفد سے ملاقات

رفتہ رفتہ کاغذوں کی جگہ ٹکرز نے لے لی اور قارئین تک کسی بھی بحث کا ہمیشہ ادھورا نچوڑ پہنچا ہے. بیرسٹر سینٹر جاوید عباسی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پارلیمانی پریس گیلری میں یہ ان چند گنے چنے پارلیمنٹرین میں شامل ہیں جنکی گفتگو کو توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے. ورنہ جس طرح کا ہمارا سیاسی ماحول بن چکا, پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھی پارلیمانی بزنس کے بجائے پوائنٹ سکورننگ عروج پہ پہنچ چکی ہے پارلیمانی پریس گیلری میں بھی اس “چیخ و پکار”کو “رولا “قرار دیکر خبر تو درکنار ٹکرز کی زینت بھی نہیں بنایا جاتا.

حکومتی وفد سے محو گفتگو ۔

تاہم یہ اعزاز سینٹر جاوید عباسی کا حاصل ہے کہ ان کے دلائل جہاں حکومت سننے پہ مجبور ہوتی ہے وہیں پارلیمانی پریس گیلری میں بیٹھے مشقتی (صحافی) بھی انہیں اپنی خبر کی زینت ضرور بناتے ہیں. میاں رضا ربانی جیسے ڈسپلن کے سخے پابند چیئرمین بھی سینٹر جاوید عباسی کو کھل کے اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کا موقع دیتے رہے جبکہ مولانا عبد الغفور حیدری اور سلیم مانڈی والا کی ڈپٹی چیئرمین شپ میں بھی سینٹر جاوید عباسی نے بولنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا. چیئر مین سینٹ میر صادق سنجرانی نے تو کھبی انکے بولنے پہ اُکتاہٹ بھی محسوس نہیں کی. گوکہ گزشتہ تین سال کا عرصہ مسلم لیگ ن کے لیے خاصا مشکل دور رہا ہے فلور اف دا ہاوس مشاہد اللہ خان مرحوم کی شعر و شاعری کا منفرد انداز تھا یا پھر سینٹر جاوید عباسی کی دلیل ریکارڈ کا حصہ بن رہی تھی.

سینٹر جاوید عباسی نے مشکل وقت میں اپنی جماعت کا موقف بہترین انداز میں پیش کیا بلکہ بسااوقات تو کریز سے باہر بھی کھیلنے سے گریز نہیں کیا ۔ایک ایسے وقت میں جب بولنا گلے پڑ سکتا تھا سینٹر جاوید عباسی نے وفاداری کو ترجیح دی ۔


سینٹر جاوید عباسی نے نہ صرف ہزارہ بلکہ خیبر پختون خواہ اور ملکی ایشوز کو ایوان بالا میں اٹھایا بلکہ بین الاقوامی ایشوز پہ بھی کھل کے اپنا اور اپنی پارٹی کا موقف سامنے رکھا.بین الپارلیمانی یونین کے اجلاس ہوں یا مختلف ملکوں کے پارلیمانی وفود کے دورے ہوں سینٹر جاوید عباسی نے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ۔


بطور پارلیمانی پریس گیلری کے طالبعلم گزشتہ 19 سالوں میں بہترین پارلیمنٹرین میں سینٹر جاوید عباسی کے نام کو ماہنس نہیں کیا جا سکتا ورنہ تو یہاں ریکارڈ پہ موجود ہے کہ سالوں ارکان پارلیمنٹ بولتے ہی نہیں اور اگر اسی تناسب سے سینٹر جاوید عباسی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو شاید اپوزیشن بنچوں سے بولنے والوں میں انکا نمبر دوسرا یا تیسرا نکلے.

بلاشبہ ایک بہترین پارلیمنٹرین کا کام “نلکے”یا “ٹوٹی”لگانا نہیں ہوتا بلکہ دنیا کے سامنے اپنا موقف پیش کرنا ہوتا ہے. بدقستمی سے ہم کامیاب پارلیمنٹرین انہیں تصور کرتے ہیں جو کوئی گلی پختہ کروا دے, کہیں نلکا لگوا دے یا شادیوں و فاتحہ خوانی میں شرکت کرے جبکہ درحقیقت کسی بھی سیاسی جماعت و حلقے کے لیے کامیاب ترین پارلیمنٹرین وہ قرار پاتا ہے جس نے فلور اف دی ہاوس اپنے لوگوں کے مسائل اٹھائے ہوں, مفاد عامہ کے نکات پہ بولا ہو, قانون سازی میں اپنا حصہ ڈالا ہو, آج اگر قومی اسمبلی میں پارلیمنٹرین کی ریٹنگ کو دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف ,پیپلز پارٹی کے عبد القادر پٹیل اور تحریک انصاف کے مراد سعید کا نام سامنے آتا ہے چاہے وہ “چیخ و پکار”ہی کیوں نہ ہو مگر دنیا جاننے لگتی ہے کہ وہ فلاں حلقے کا نمائندہ بول رہا ہے

اسی طرح سینٹ میں سینٹر جاوید عباسی نے کامیاب اننگز کھیل کے نہ صرف اپنی جماعت بلکہ تحصیل لورہ, ہزارہ ڈویژن بلکہ خیبر پختوں خواہ کا نام روشن کیا ہے, ایوان بالا میں شاید ہی خیبر پختون خواہ سے کوئی ایسا سینٹر اس سینٹ میں موجود ہو جس نے سینٹر جاوید عباسی جتنی کارکردگی دکھائی ہو. بطور چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے بھی سینٹر جاوید عباسی کی کارکردگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے

بطور سیکرٹری واک آؤٹ کمیٹی پارلیمانی پریس گیلری بھی راقم نے دیکھا کہ جب بھی میڈیا کے کسی ایشو پہ ہم نے پارلیمانی پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا ہو اور چیئر کی جانب سے بھجوائے جانے وفد میں سینٹر جاوید عباسی موجود ہوں تو فلور پہ ہمارا مسئلہ اسی طرح من و عن اٹھایا جاتاتھا جیسے ہم نے بتایا تھا ورنہ اکثر ہمارے دوست پارلیمنٹرین ہمیں منا کے واپس جاتے وقت ہمارا آدھا مسلہ تو راستے میں ہی بھول جاتے رہے ہیں.


اہلیان تحصیل لورہ کی سیاسی وابستگیاں اپنی جگہ, ذاتی پسند و ناپسند ایک مسلمہ حقیقت مگر بیرسٹر جاوید عباسی کی کارکردگی کا ہمیں معترف ہونا ہوگا. سردار عنایت الرحمن خان عباسی مرحوم کے بعد اگر ایوان میں کوئی دلیل کے ساتھ بولا ہے تو وہ بیرسٹر جاوید عباسی ہیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں