پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یو جے) کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں وفاقی دارلحکومت کے فائیو سٹار ہوٹل میں ہونے والے ”نیشنل سیمنار“میں جہدوجد کے ساتھی مظہر عباس نے آزادی اظہار رائے کی 70سالہ جہدوجد کا مختصر خاکہ پیش کیا جو کہ میرے جیسے صحافت کے طالبعلم کے لیئے ایک درخشاں تاریخ کی حیثیت رکھتا ہے۔بلاشبہ ہمارے سنیئر ز نے وقت کے ”فرعونوں“ کی فرعونیت کا جوانمردی سے نہ صرف سامنا کیا بلکہ کال کوٹھری اور ٹکٹکی پر چڑھنے کے باوجود جبر کے سامنے ڈھیر ہونے سے انکار کیا۔ وہ جنہوں نے ٹکٹکی کے ساتھ لاوڈ اسپیکر لگا رکھے تھے کہ ”صحافیوں“ کی چیخیں سارا جگ سنے گا، انہیں اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب ان صحافیوں نے کوڑے لگنے پہ اف تک نہ کی،وہ سارا درد،وہ چیخ دانتوں تلے دب گئی،راتیں قبروں میں گزار کے صبح گرفتاری کے لیئے تیاری پکڑنا کوئی ان سے پوچھے۔آج جب ہم اس تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو بسااوقات اپنی انگلی کاٹ کے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم حقیقت میں اپنے سنیئرز پر ڈھائے جانے والے مظالم کو پڑھ رہے ہیں یا کوئی خواب دیکھ رہے ہیں؟اسکی وجہ ہمارے سامنے آج کی صحافت اور صحافی ہے۔ہمیں کسی صورت یقین نہیں آتا کہ ہمارے یہ ”ہیروز“ آزادی اظہار رائے اور شخصی آزادیوں،جمہوریت کی بحالی اور آہین کی بالادستی کے لیئے ان صوبتعوں سے گزرے ہونگے۔
2000میں جب ہم نے اس فیلڈ میں قدم رکھا تو ہمارے یہی ہیروز ہمارے لیئے رول ماڈلز تھے،ہم بھی محترم مہناج برنا،نثار عثمانی،حسین نقی،اقبال جعفری اور ناصر زیدی بننا چاہتے تھے،انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم نے راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے پلیٹ فارم سے اپنے آپ کو وقف کر دیا،ہمیں بھی صرف آئین کی بالادستی،جمہوریت و شخصی آزادیوں کی بحالی چاہیے تھی۔یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف چلائی جانے والے تحریک میں ہم پیش پیش تھے،وہ تحریک کامیاب ہوئی پھر جمہوریت بحال ہو گئی،جمہوریت جمہوریت کا یہ سفر جاری رکھا،اور جمہوریت کے اس سفر میں عامل صحافی کے حالات نہ بدلے،نہ سیٹھ بدلا،نہ حکومتی روش بدلی،مگر اس دوران انہونی یہ ہو گئی کہ ہم اپنے ”ٹریک“ سے ہٹ گے تقسیم در تقسیم نے ہمیں کمزور سے کمزور تر کر دیا۔ہمارے درمیان مالشیوں،پالشیوں اور منشیوں کی بہتات ہوگئی،مظہر عباس بھائی آپ سے کوئی ا تفاق کرے یانہ کرے میں آپ سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں آپ کے وقت وہ چند تھے جنہوں نے جھکنے سے انکار کیا اور تاریخ میں امر ہو گے مگر آج تعداد ہزاروں میں ہے مگر ان میں وہ صحافی کتنے ہیں؟جنہوں نے قلم کے تقدس کی قسم کھا رکھی ہے،ہمارے ہیروز کو وقت اچھا ملا تھا،ایڈیٹرز اچھے ملے تھے،آج پروفیشنل ایڈیٹر چراغ ڈھونڈنے سے نہیں ملتے،پراپرٹی مافیاز نے ”صحافت“ کا لبادہ اوڑھ لیا ہے،آپ جیسی آوازیں اب نقار خانے میں طوطی کی آوازیں بن کے گونجتی ہیں۔ہمارے ہیروز جس وقت پیٹھ پہ کوڑے کھا رہے تھے اس وقت ان کے گھر والوں کی سوشل میڈیا پہ کردار کشی نہیں ہو رہی تھی،جس وقت ان ضمیر کے قیدیوں کو ایک سے دوسری جیل میں منتقل کیا جاتا تھا عوام کا جم غفیرریلوے اسٹیشنز پر ٹرین روک لیتا تھا،مگر وقت تبدیل ہو چکا ہے آج جو آزادی اظہار رائے کی بات کرے گا،جو شخصی آزادیوں کی بات کرے گا یہی عوام اسکی ”منجھی پیڑی“ ٹھونکنے کے لیئے آگے آگے ہو گی۔اس وقت آپ کو ضمیر کا قیدی تصور کیا جاتا تھا آج کا سرٹیفکیٹ ذرا مختلف ہے آپکی کی فیملی”غداری“ کا لیبل افورڈ نہیں کر سکے گی،آپ کے بچے ”کافر کے بچے“ کہلوانا پسند نہیں کرینگے۔آج کا معاشرہ قدرے مختلف ہو گیا ہے،اب معاشرے میں جدت آ چکی ہے۔
کج شہر دے لوگ وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
کے مصداق اہل قلم میں چھپے میر صادق و میر جعفر نے قلم کو بہت سستے میں سودا کر دیا ہے،میرے جیسے صحافت کے طالبعلم کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں ہے کہ ایک صحافی کا قصور کیا ہے؟اگر کسی ادارے کے خلاف سچ لکھے تو ادارہ دشمن۔عوام کو اپنی ذمہ داریاں سمجھائیں تو عوام دشمن۔حکومت کی اچھائی لکھو تو لفافہ صحافی،حکومت کی کوتاہی کی نشاندہی کرو تو حکومت دشمن۔مافیاز کو بے نقاب کرو تو جان کا خطرہ،انکھیں بند رکھ لو تو بھتہ خورصحافی،جرم بے نقاب کرو تو محافظ دشمن،انکھیں موند لو تو عوام دشمن،حدود و قیود کی بات کرو تو غیر ملکی ایجنٹ کا لیبل لگانے میں دیر نہیں لگتی۔
ہماری قوم کی نفسیات بھی آج تک پوری دنیا کی سمجھ میں نہیں آ سکیں تو میرے جیسے صحافت کے طالبعلم کے سمجھ میں کیسے آ سکتیں ہیں۔آج بھی جہاں کہیں ناانصافی و ظلم ہو گا امیدیں میڈیا سے وابستہ ہونگی،مگر جیسے ہی یہ امید پوری ہو جائیگی فوری اسی آئینے کو توڑنے کے درپے ہو جائینگے۔آخر کیوں؟
صحافت معاشرے کا آئینہ ہے اب اس آئینے میں جس کا جیسا چہرہ ہو گا ویسا ہی نظر آئے گا،کالے کرتوت ہوں تو آئینہ توڑا نہیں جاتا،چہرے پہ لگی کالک دھوئی جاتی ہے۔اگر کسی نے کھبی کسی عامل صحافی کے حالات جاننے ہیں تو وقت نکال کے آیئے،ہماری سامنے ایسی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ہمارے ان ساتھیوں نے ادویات مافیا ز سے ملنے والی کروڑوں کی آفرز ٹھکرا دیں جبکہ دوسری جانب انہیں گھر کا کرایہ ادا نہ ہونے کی صورت میں پولیس اسٹیشن کی یاترا بھی کرنا پڑی۔بچوں کی سکول کی فیس نہ دینے پہ بچوں کو سکولوں سے نکال دیا گیا مگر یہ بکنے والے نہیں تھے تو جبر برداشت کر تے گے،مگر یہ سچے موتی ٹوٹتے اس وقت ہیں جب نہ جاننے نہ سمجھنے والے سوشل میڈیا پہ انکی کردار کشی شروع کر دیتے ہیں ایسے میں ان صحافیوں کے بچے یہ سوال ضرور کرتے ہیں ”پاپا! آپ یہ فیلڈ چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟گھر کا کرایہ نہیں،سکول کی فیس نہیں،گھر میں آٹا دال نہیں،کوئی بات نہیں مگر آ پ کی فیلڈ ”غدار“ کیوں ہے؟”کافر“ کیوں ہے؟پاپا آپ لفافی ہیں؟پاپا! لوگ صحافیوں کو ٹاوٹ،بلیک میلر کیوں کہتے ہیں؟یہ سوالات آج کے سچے صحافی کو سننے پڑتے ہیں۔یہی سوالات میں اپنے ہیروز کے سامنے رکھتا ہوں،میرے کامریڈ! یہ جہدوجد کب تلک؟میری قیادت!اہل قلم کا قصور کیا؟۔۔۔۔۔
