افغانستان سے امریکی انخلا:”Bingo“
ناصرمغل
امریکی فوج اوراس کے نیٹو اتحادی افغانستان کی جنگ میں شکست کھاکر آج یکم مئی 2021ء سے باضابطہ انخلاشروع کررہے ہیں۔اتحادی کمانڈرجنرل سکاٹ ملرکے مطابق سازوسامان کی منتقلی کاعمل پہلے ہی شروع کیاجاچکاہے۔
20برس قبل جب امریکہ اور اس کے بڑے اتحادی برطانیہ نے افغانستان پرحملہ کیاتھااور بعدازاں نیٹونے بھی اس جنگ میں شمولیت اختیارکی تو کسی کو اس بارے میں ایساگمان بالکل نہیں تھاکہ عظیم الشان حربی طاقت کی مالک یہ افواج قاہرہ کبھی رسواہوکر،ہزیمت اٹھاکر یہاں سے نکلنے پر مجبورہوجائیں گی۔ لیکن طالبان کی بے مثال مزاحمت نے امریکی غرورکو بالآخرخاک میں ملادیا۔اب نہ صرف امریکہ اورنیٹوغیر مشروط،مکمل انخلا کررہے ہیں بلکہ کھلے لفظوں میں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ افغانستان سے ہمارے جانے کے بعد کیاہوگا، کچھ نہیں کہہ سکتے۔یہ بات بذات خود غیر ملکی افواج کے اعتراف شکست کی حیثیت رکھتی ہے۔
ؒسابق امریکی جنگی ہیروزنے افغانستان سے نکلنے کو ویت نام کی یادکااعادہ قراردیاہے۔ادھر ملک میں خانہ جنگی کے آثارواضح ہیں۔ امریکی شکست نے دنیامیں ہرجگہ بالخصوص طالبان عسکریت پسندوں کے حوصلے بلندکردیئے ہیں۔ وہ فتح کاجشن منارہے ہیں جس کاانہیں بجاطورپر حق بھی حاصل ہے۔
افغانستان کے دورے پر گئے ہوئے جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے گذشتہ روز،جمعرات کو، کابل میں کہا کہ مستقبل میں افغانستان کے لیے ہر قسم کی مالی امداد اس امر سے مشروط ہو گی کہ وہاں جمہوری معیارات کا خیال رکھا جائے۔ہائیکو ماس کے مطابق یہ بات طالبان بھی جانتے ہیں کہ یہ ملک جسے گذشتہ عشروں کے دوران لڑی جانے والی جنگوں کے نتائج کا آج تک سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اسے بین الاقوامی مالی امداد پر کتنا زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔“جرمن وزیر خارجہ نے زور دے کر کہا، ”وہ تمام حقوق اور جمہوری معیارات جو اب اس ملک میں مسلمہ حقیقت ہیں، اگر طالبان نے ان کی نفی کی، تو پھر افغانستان کو ملنے والی بین الاقوامی امداد یقینی طور پر بند ہو جائے گی۔“اس بارے میں تو وقت ہی بتائے گاکہ طالبان کیاکرتے ہیں اور انہیں کسی سہارے کی ضرورت ہے یانہیں۔ لیکن اب وہ وقت ضرورشروع ہونے والاہے جب طالبان اقتدارپرقبضہ کرنے کے لیے بروئے کارآئیں گے۔
امریکہ نے اپنے سفارتی عملے کی ایک تعداد کو بھی واپس بلایاہے۔اور امریکی حکومت نے یہ بھی کہاہے کہ انخلا کے بعد عملی جنگی مدد فضائی آپریشن کی صورت میں کابل انتظامیہ کو میسرنہیں ہوگی البتہ اخراجات برداشت کریں تو الگ بات ہے۔ایک امریکی افسرکاحالیہ دنوں میں یہ بھی کہناتھاکہ افغان فوج اپنے بل پر طالبان کامقابلہ نہیں کرسکے گی۔ ایسے میں امریکی محکمہء خارجہ نے اپنے شہریوں کے لیے انتباہ جاری کیا ہے کہ وہ افغانستان کا سفر نہ کریں، کیوں کہ افغانستان کے تمام علاقے اس وقت غیر محفوظ ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد اور باغی گروپوں کی جانب سے حملوں، اغوا کرنے، یرغمال بنانے، خود کش حملوں، وسیع پیمانے پر عسکری کارروائیوں کا خطرہ ہے۔ دہشت گرد، افغان اور امریکی کاروانوں اور تنصیبات پر حملوں کے منصوبے بنا رہے ہیں اور پہلے بھی سرکاری کارواں پر حملے کیے گئے ہیں۔ ان حملوں کا نشانہ غیر ملکی سفارت خانے، غیر سرکاری تنظیموں اور غیر ملکی کاروباروں کے دفاتر اور یہاں تک کہ اسپتال اور رہائشی علاقے بھی بن سکتے ہیں۔انخلاکوتحفظ دینے کے لیے دوبم باربی52طیارے قطر پہنچ گئے ہیں جہاں پہلے سے موجود 2طیاروں سے مل کریہ ٹیم دوران انخلا فضائی مدد اورنگرانی کرے گی۔طیارہ بردار بحری بیڑے یو ایس ایس ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کو ہدایات ملی ہیں کہ وہ انخلا کے آغاز تک خطے میں ہی رہے۔فوجی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مختصر نوٹس پر بری افواج بھی کمک کے لیے روانہ کی جا سکتی ہیں۔ محکمہ خارجہ نے انخلا کے تناظر میں لاحق خطرات کی وجہ سے کابل میں اپنے سفارت خانے کے عملے سے کہا ہے کہ وہ ملازمین جو کہیں دور سے بھی اپنا کام انجام دے سکتے ہیں، انہیں کابل چھوڑ دینا چاہیے۔
یہ 20سال تک افغانستان میں جنگ لڑنے والی دنیاکی طاقت ورترین فوج رکھنے والے ملک نے اپنی’حفاظت‘کے انتظامات کیے ہیں۔ایسے میں یہ سمجھناکہ طالبان بین الاقوامی امداد کی طرف دیکھ کرکوئی اقدام کریں گے، ناقابل فہم بات ہے۔
امریکہ اورنیٹو صرف ہارکرنہیں بلکہ تھک ہارکرواپسی اختیارکررہے ہیں، لیکن دوسری طرف طالبان کی ’حرکات‘ میں کسی تھکن یاواماندگی کے آثارنہیں۔بلکہ ان کی لڑی ہوئی جنگ کاانعام لینے کاوقت ہی اب آیاہے۔
آج طالبان کہیں گے ’وہ مارا‘۔امریکی اسے Bingoکہتے ہیں۔
