پارلیمانی تاریخ کا انوکھا واقعہ!حکومتی احتجاج کا فیصلہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہوا

اسلام آباد(پارلیمانی دائری/اصغر چوہدری)قومی اسمبلی کے منگل کو ہونے والے اجلاس کے حوالے سے وفاقی کابینہ کے اہم ترین اراکین نے بتایا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران حکمران جماعت کی جانب سے احتجاج کا فیصلہ مبینہ طور پر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہوا ہے اور وزیر اعظم عمران خان کی مبینہ طور پر مرضی و منشاء بھی شامل تھی ۔یہ ایک ایسا انکشاف ہے کہ اسکی مثال دنیا کی پارلیمانی تاریخ میں کہیں ملتی نہیں ہے

پارلیمانی بزنس کے دوران اپوزیشن جماعتوں کا رویہ ہمیشہ جارحانہ اور حکومتوں کو زچ کرنے کا ہوتا ہے تاہم پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ حکومت نے خود احتجاج کی حکمت عملی اپنائی ہے ۔ماضی کی حکومتوں کا تقابلی جائزہ لیں تو میر ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز کے دور میں مسلم لیگ ن کی جانب سے سخت اپوزیشن کا کردار ادا کیا جاتا تھا جس میں متعدد بار دوبدو لڑائی بھی ہوئی تھی بلکہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک بار تو اپنی جسامت کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا تھا تاہم اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ق کی جانب سے معاملہ پہ مٹی پاو پالیسی کے تحت کام چلایا جاتا تھا ۔بعد ازاں پیپلز پارٹی کے دور میں بھی مسلم لیگ ن نے روایتی اپوزیشن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹف ٹائم دیا تاہم پیپلز پارٹی کے وزراء نے ہمیشہ اپوزیشن کو راضی رکھنے کی کوشش کی

مسلم لیگ ن کے سابقہ دور میں تحریک انصاف سمیت پیپلز پارٹی نے بھی سخت اپوزیشن کا کرداد ادا کیا تاہم اسپیکر ایاز صادق نے اپوزیشن کو راضی رکھا اور حکومت نے بھی واک آوٹ کے فوری بعد انہیں راضی کرنے کی کوشش کی تاہم موجودہ حکومت کے دور میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اپوزیشن کے واک آوٹ پہ کلمہ شکر ادا کیا جاتا رہا ہے

منگل کے اجلاس میں جس طرح کا رویہ حکمران جماعت کی جانب سے اپنایا گیا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ حکمران جماعت پارلیمان سے بددل ہو چکی ہے اور پارلیمنٹ کو اکھاڑہ بنانے کے لیئے تمام کوششیں بروئے کار لائی جا رہی ہیں ۔اجلاس میں اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوان کے اندر صرف پی ٹی آئی اراکین کی فوٹیج بنائیں اور انہیں میڈیا پہ وائرل کیا جب کہ لیگی اراکین کی جانب سے کیئے جانے والے احتجاج اور کتابی گولہ باری تحریک انصاف سامنے نہ لاسکی ۔یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی علی نواز اعوان کی جانب سے دی جانے والی گالیاں تو میڈیا و سوشل میڈیا پہ وائرل ہیں تاہم جوابی گالیوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے

پارلیمانی پریس گیلری میں سخت چیک اینڈ بیلنس ہونے کی وجہ سے کوئی وڈیو فوٹیج نہیں بنائی جا سکی تاہم پریس گیلری میں بیٹھے صحافی دو اطراف سے کیئے جانے والے مقابلے کا بغور جائزہ لے رہے تھے ۔واقفان حال کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹرین کے اس رویے نے پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔22 کروڑ عوام کی اجتماعی دانش گاہ سے عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیئے کوئی ٹھوس تجویز سامنے آنا تو درکنار کسی نے سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی ۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں