نوابزادہ نصراللہ خان،بھٹوز،آل شریف،بگٹی،جتوئی،میرانی،چوہدریوں و نوابین کو سیاست ہی نہیں آئی ! نقطہ :اصغر چوہدری

پاکستانی سیاست یا سیاست دانوں کی بات کریں تو جب ہم نے شعبہ صحافت میں کاغذ قلم سھنبالا اور بالخصوص پارلیمانی سیاست کو چنا تو اس وقت ہمارے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ یہی پارلیمنٹ جس کی بالا دستی آہین کی حکمرانی ،جمہوریت کی بالا دستی کی ہم فٹ پاتھوں پہ جنگ لڑنے کو تیار تھے ایک دن ایسا بھی آئے گا جب اسی پارلیمنٹ میں بیٹھے اراکین اور کالجوں یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں کے درمیان ہونے والی محاذ آرائی میں کوئی فرق نہیں رہے گا بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ 90 کی دہائی میں طلبہ تنظیمیں بھی لڑائی میں کچھ قواعد و ضوابط اپناتی تھیں ،اپنے سے سنیئر طلبہ کی تضحیک کو سوچنا بھی کفر سمجھا جاتا تھا ۔مار کٹائی میں بھی کوشش کی جاتی تھی کہ چہرے پہ چوٹ نہ لگے البتہ مختلف مافیاز کے درمیان ہونے والی لڑائی میں کوئی ضابطہ اپنایا نہیں جاتا تھا اور شاید گزشتہ دو روز سے پارلیمنٹ میں ہونے والی لڑائی بھی اسی مافیاز کی لڑائی سے ملتی جلتی نظر آ رہی ہے ۔پارلیمانی پریس گیلری سنتی سب کچھ ہے ،دیکھتی سب ہے اور حسب استقات رپورٹ بھی سب کچھ کرتی ہے اگے شائع ہونا یا نشر ہونا پریس گیلری کے بس کی بات نہیں ہے ۔البتہ پارلیمانی قواعد کے مطابق پریس گیلری وڈیو ریکارڈ نہیں کر سکتی ۔اگر یہ اجازت صحافیوں کو مل جائے تو ایسی ایسی فوٹیج سامنے آ سکتی ہے کہ ووٹ دینے والے دو رکعت نماز صلوۃ توبہ پڑنے پہ مجبور ہو جاہیں ۔

بات ہو رہی تھی ہمارے کاغذ قلم سھنبالنے کی تو اس وقت جن سیاست دانوں کو ہم نے بات کرتے دیکھا ان میں میر ظفر اللہ جمالی ،چوہدری شجاعت حسین،نوابزادہ نصراللہ خان،محترمہ بے نظیر بھٹو،میاں نواز شریف،میاں اظہر،آفتاب شیرپاو ،الہی بخش سومرو،ولی خان،آفتاب شعبان میرانی ،غلام مصطفیٰ جتوئی،مخدوم امین فہیم ،ڈاکٹر فہمیدہ مرزا،داکٹر شیر افگن نیازی ،مولانا عبد الستار نیازی،میر حاصل بزنجو،نواب صادق عباسی،نواب اکبر بگٹی ،مولانا فضل الرحمن ،حافظ حسین احمد،گوہر ایوب خان،امان اللہ جدون جیسے بہت سارے سیاست دان تھے جہاں سخت سےسخت بات بھی آپ ،جناب کہہ کے کی جاتی تھی ۔تاہم اب وقت تبدیل ہو گیا ہے پہلے وڈیرے ،جاگیردار،سرمایہ دار ،نواب ،چوہدری اور خان منتخب ہوتے تھے ،مگر اب عوام باشعور ہو چکی ہے اب عام آدمی کی پہنچ پارلیمنٹ تک ہو چکی ہے اس لیئے سیاسی کلچر کا تبدیل ہونا بھی ضروری ٹھہرا،ماضی کے وہ سیاست دان جن کا تکیہ کلام ہی جناب محترم ،عالجاہ جناب ،عزت ماآب تھا وہ آج کتنا پچھتا رہے ہونگے کہ وہ اس دور میں پارلیمنٹرین کیوں نہیں بنے ؟ جس دور میں مخالفین سے بات ہی اوے ،تو،تم سے شروع ہوتی ہے اور اس کے بعد ایسی گالیاں کہ دینے والا بھی دوبارہ سننے کو تیار نہیں

آج ایک ایسا دور ہے کہ لیڈر آف دی ہاوس ہو یا لیڈر آف دی اپوزیشن جس کا دل چاہیے اسکی تضحیک فلور آف دی ہاوس کر ڈالے ۔کروڑوں فالورز رکھنے والے لیڈر کو جو دل چاہے بولیں کوئی رکاوٹ نہیں ۔ہمیں یاد ہے کہ چوہدری نثار علی خان پیپلز پارٹی کے دور میں اپوزیشن لیڈر تھے بجٹ پہ تقریر شروع کرنے لگے تو حکومتی بنچوں سے ایک آواز بلند ہوئی جس کے جواب میں چوہدری نثار اپنی نشست پہ بیٹھ گے کہ پہلے انہیں بولنے دیں اس پہ اسپیکر فہمیدہ مرزا نے مزکورہ رکن کی سخت تنبیہ کی اور ایوان پن ڈراپ سائلنس ہو گیا ،اور اپوزیشن لیڈر نے گھنٹوں طویل تقریر کی ۔ان وقتوں کی حکومتیں تو حکومتیں تھیں اپوزیشن بھی نکمی ثابت ہوئی ،زیادہ اعتراض ہوا تو ایوان سے واک آوٹ کر دیا یا کورم کی نشاندہی کر دی ،پھیکا پھیکا سا ایوان تھا ۔نہ لیڈر آف دا ہاوس کی تقریر میں خلل ،نہ شور شرابہ ،نہ بوتل باری اور نہ ہی کتاب باری دیکھنے کو ملی ،اپوزیشن کو زیادہ سے زیادہ شوق چڑھا تو اسپیکر ڈائس کا گھیراو کرکے نعرہ بازی کا شوق پورا کر لیا

بھلا ہو موجودہ پارلیمنٹرین کا انہوں نے نئی پارلیمانی روایات کو جنم دیا ۔اگر یہ روایات نہ ڈالی جاتیں تو وزیر اعظم ایوان میں حکومتی اراکین حصار کے بغیر کیسے بات کرتے اور اپوزیشن لیڈر بولے تو اپوزیشن اراکین حفاظتی دیوار بنا ڈالیں ،ایوان میں وزیر اعظم کے لیئے سیلکٹڈ کے نعرے اور اپوزیشن لیڈرز بولیں تو بلو رانی اور چور چور کے نعرے سننے کو کیسے ملتے ؟اب تو بات مزید آگے چلی گئی ہے ایوان کے دونوں اطراف کے عوامی نمائندے عوامی مسائل کے حل کے لیئے اتنے جزباتی ہو چکے ہیں کہ بجٹ کی بھاری بھرکم کتابیں ایکدوسرے پہ پھینک کے مسائل حل کرنے کی سعی کرتے ہیں بلکہ حالیہ کرورنا وباء سے بچنے کے لیئے ہاتھوں کو سینٹائزر کروانے کی اتنی جلدی ہے کہ سیدھی بوتل پھینک کے نشانہ چہرے کا لگایا جاتا ہے کہ ہاتھ تو ہاتھ کہیں چہرے پہ کرورنا نہ آ جائے ۔یہ الگ بات ہے کہ بوتل نشانے پہ لگے تو چہرے پہ نشان چھوڑ جاتی ہے۔

قومی اسمبلی کے ایک اجلاس پہ اس قوم کا کروڑوں روپے خرچ ہوتا ہے البتہ پارلیمنٹرین پارلیمانی بزنس کے معاملے پہ اتنے سنجیدہ ہیں کہ تین دن سے اپوزیشن لیڈر کی تقریر شروع نہیں ہو سکی یہ اور بات ہے کہ ان اراکین کے ٹی اے ڈی اے بوتل و کتاب باری میں بھی بنتے جا رہے ہیں ۔آج ہمیں بھی احساس ہوا ہے کہ دو دہایاں ہم نے بھی خالی خولی میں ضائع کی ہیں ۔اصل سیاست تو یہ ہے ،یہی ہمارے معاشرے کا حقیقی چہرہ ہے ،یہی تو عدم برداشت عروج ہے ورنہ 22 کروڑ عوام کی اجتماعی دانش گاہ تو گرداب سے نکلنے کا حل تجویز کرتی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں