آج سے تقریبا 20 سال قبل جب 9/11 کا ڈھنڈورا پیٹتے انکل سام افغانستان پر چڑھائی کے لیئے تمام اقدار کو روندنے پر تیار تھے اس وقت پوری دنیا کے میڈیا کا رخ اسلام آباد کی جانب تھا ،شاید ہی اسلام آباد کا کوئی ہوٹل ،گیسٹ ہاوس ایسا ہو جہاں عالمی میڈیا کے نمائندگان نے پڑھاو نہ ڈالا ہو۔وفاقی دارالحکومت کی خاموش رائداریوں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ انکل سام کی صورت میں بدمست ہاتھی کسے کسے روند کے گزرے گا ،ہمارے اس وقت کے چیف ایگزیکٹیو صاحب نے بھی کمال جرات و بہادری کا مظائرہ کرتے ہوئے ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہونے کا اکیلے ہی فیصلہ کرتے ہوئے امریکیوں کو بھی ورطہ حیرت میں دال دیا جس کا ذکر اس وقت کے اہم امریکی عہدیداروں نے اپنی مختلف یاداشتوں اور کتابوں میں کیا ہے ۔انکل سام سرکار کا خیال تھا کہ اسلام آباد کی جانب سے کوئی لمبی چوڑی مطالبات کی لسٹ دی جائیگی مگر ہمارا تو کام ہی دوسروں کے لیئے آسانیاں پیدا کرنا ہےاور پھر وہی ہوا “سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ مقبول ہوتے ہی اسلام آباد سے پڑوسی ملک کے سفیر کی ایسے گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے جیسے جنیوا کنونشن کا اطلاق صرف بڑی طاقتوں کے سفارتی زعماء کے لیئے مخصوص ہے ۔

آج 20 سالوں بعد جب وہی ملا ضیعف سے انکل سام مزاکرات کرتے نظر آتے ہیں تو چشم تصور میں ہمیں انکی گرفتاری کا عمل بھی دکھائی دیتا ہے ۔بقول شاعر یاد ماضی عذاب ہے یا رب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

طاقت کے نشے میں تورا بورا تلک کو تاراج کیا گیا مگر کیا مقاصد حاصل ہوئے ؟یا سوالات آج ہر شخص کے ذہنوں میں گونج رہے ہیں ۔یہی بدنام زمانہ بگرام جیل تھی جہاں سے قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو امریکہ جیل تک پہنچایا گیا۔بگرام کے دردیوار علم نہیں کتنے بے گناہوں کے خون کے چھینٹوں سے سرخ ہونگے ،انسانیت سوز مظالم کی کتنی داستانیں ان دیواروں میں رقم ہونگی۔ ملا عبدل ضعیف نے تو اپنی داستان الم بیان کر دی ہے،انسانیت سوز مظالم کا پردہ چاک کر دیا ہے ،مگر ان گنت ایسے قصے بھی ہیں جو کھبی کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں بن سکیں گے۔

بگرام ائر بیس سے امریکی انخلاء مکمل ہو گیا ہے ۔افغانستان کے چاروں کونوں میں بے یقینی کی کیفیت ہے ،طالبان کی پیش قدمی بھی تیزی سے جاری ہے ایسے میں افغانستان ایک مکمل خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہا ہے ۔پاکستانی قوم افغانستان کا پڑوسی ہونے کی صورت میں مسلسل آزمائش سے گزر رہی ہے ،روس کا گرم پانیوں تک رسائی کا سفر روکنے کی پاداش میں پاکستان کے گلی کوچوں میں بم دھماکے ایسے کرائے گے جیسے شب برات میں پٹاخے چلائے جاتے ہیں ،طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا حصہ محفوظ رہا ہو جہاں دہشت گردی نہ ہوئی ہو۔

پاکستانی قوم کوسینکروں ارب ڈالرز کا معاشی نقصان تو برداشت کرنا ہی پڑا ساتھ 70 ہزار شہداء کے جنازوں کو بھی کندھا دینا پڑا ،لاکھوں افغان مہاجرین کو بوجھ الگ سے ڈالا گیا ۔آج پاکستان کی معشیت اس قابل نہیں ہے کہ وہ مہاجرین کا مزید بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا سکے ،بڑی مشکل سے ہزاروں جوانوں کی قربانیوں کے بعد ہم نے دہشت گردی کے جن کو بوتل میں واپس بند کیا ہے ،اب ہم کسی نئی مشکل کے متحمل نہیں ہو سکتے۔


بگرام ائر بیس افغان فورسز کے حوالے ہو گیا ہے اب دیکھنا یہ ہو گا کہ افغان فورسز کب تک اسے طالبان کی پیش قدمی سے بچا سکتیں ہیں ،ہماری پارلیمنٹ ،ہمارے پالیسی ساز اداروں کو چاہیے کہ پاکستان کو درپیش خطرات کے پیش نظر پہلے منصوبہ بندی کر لی جائے ،ہمیں آج حقیقت میں “سب سے پہلے پاکستان” کے نعرے کواپنانا ہوگا ،انکل سام اور ہمارے دیرینہ دشمن ہمیں غیر مستحکم کرنے کے لیئے مختلف چالوں پر کام کر رہے ہیں ،ہم نے بطور قوم ان چالوں کو ناکام بھی بنانا ہے اور اپنے پیارے وطن کو محفوظ بھی رکھنا ہے ۔۔۔۔۔۔