دادی کے پہلو میں ننھے شہزادے غازیاں و ذیشان کی میٹھی نیند: نقطہ ! اصغر چوہدری

رات کا آخری پہر تھا اور میرپور کی شدید گرمی و تھکاوٹ کے بعد رات گئے کمرے کی خنکی بھی نیند کی وادی میں بھیجنے کو تیار نہیں تھی ،کروٹیں بدلتے بدلتے ایک نئی صبح کی کرنیں کمرے میں داخل ہو رہیں تھیں،نئی صبح نئی نوید بھی ساتھ لاتی ہے مگر علم نہیں کہ مجھے نئی صبح آنے کے آثار کیوں نظر نہیں آتے ۔ان دکھے خوف نے کیوں گھیر رکھا ؟ایسی کیا انہونی ہونے والی ہے ؟جو انہونیاں ہو چکیں ہیں کیا انہیں روکنا میرے بس میں تھا ؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ملتا ہے البتہ حتی المقدور کوشش ضرور کی کہ اس میں اپنا حصہ ڈال سکوں تاکہ کل روز قیامت میرا نامہ اعمال میں آگ لگانا نہیں بلکہ پانی ڈالنے والوں میں سے نکلے۔زندگی کی 53 بہاریں دیکھ چکا ہوں ،بچپن کے بعد لڑکپن گزرا اور اب پچپن آنے کو ہے ،صحافت جیسے پیشے سے منسلک ہونے کی وجہ سے روزانہ ہی متعدد انہونیوں سے واسطہ پڑتا ہے اس لیے ہم بھی اسے روٹین کی نیوز کی طرح لیتے ہیں ،کہیں درد دل نہیں لیتے مگر کچھ عرصہ قبل بہارہ کہو سے ایک معصوم بچی اغواء ہوئی اور اسکے بعد اسکی تیزاب زدہ ہڈیاں ایک گٹر سے ملیں دل سخت رنجیدہ ہوا ،صحافی سے زیادہ باپ کا ری ایکشن دیا ۔الحمد اللہ اس کیس کے ملزمان سالوں گزرنے کے باوجود جیلوں میں سڑ رہے ہیں ۔تقریبا ڈیڑھ سال قبل ایک اور واقع بہارہ کہو میں ہی ہوا جہاں ایک ننھے فرشتے عمر مختار راٹھور کو تاوان کے لیئے قریبی عزیز نے ساتھیوں کی مدد سے اغواء کیا ،جسم ٹیپ زدہ کرکے الماری میں بھوکا پیاسا رکھا جس سے اسکی موت واقع ہو گئی اور پھر الماری سے ٹیپ زدہ لاش ملی

غازیان و ذیشان کا قاتل

اس بے ظلم و ستم پر نہ زمین پھٹی نہ آسمان گرا ،لولا لنگڑا قانون حرکت میں آیا اور ملزمان آج بھی جیل میں ہیں اور باپ بیٹے کے لاشے کا انصاف مانگنے کے لیئے آج بھی کورٹ کہچریوں کا چکر لگا رہا ہے ۔ زندگی کی اس حصے میں جب آپ دادا،دادی کے منصب پر فائز ہوتے ہیں تو آپ کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں ،اپنی اولاد سے زیادہ عزیز اولاد کی اولاد ہو جاتی ہے اور چونکہ اللہ کریم نے مہربانی فرماتے ہوئے مجھے ایک پری اور ایک شہزادے کا قرب نصیب کیا گیا انکی معصومیت میں مجھے فرشتے نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ معصوم بچوں کے معاملے میں حساسیت حد سے بڑھ چکی ہے اور ویسے بھی بڑے بزرگ کہتے تھے کہ “بچے سانجھے”ہوتے ہیں اس لییئے بچوں کا درد بھی سانجھا نکلتا ہے

غازیان و ذیشان کے غم نے سب کو ایک لڑی میں پرو دیا

بقول میاں محمد صاحب

!دکھیئے دی گل دکھیئا سندا سکھیئے دی سکھیئا دکھیئا ہائے کرے تاں کولوں سکھیئا ہوندا دکھیئا ! میاں محمد بخش رح سے کم ازکم مجھے سو فیصد اتفاق ہے ابھی ماڑی والے ننھے عدنان کے بہیمانہ قتل کا غم کچھ کم نہیں ہوا تھا کہ سنبر میں ننھے غازیاں و ذیشان جن کے منہ سے ابھی فیڈر بھی نہیں چھوٹا تھا کو تاریخ کی بدترین سفاکیت و حیوانیت کا شکار بنایا گیا ۔ماڑی و سنبر میں انسانوں کی شیطانیت دیکھ کر دور کہیں شیطان بھی منہ چھپا رہا ہؤگا۔کہنے کو اور دیکھنے میں تو ہم انسانوں کی اشکال رکھتے ہیں مگر ہمارے کرتوتوں سے سانپ بھی اپنے بلوں میں واپس چلے گئے کہ “انسان ہی کافی ہے انسان کو ڈسنے کے لیئے”۔بقول میاں محمد صاحب یہ درد مشترکہ ہے جب مشترکہ درد دل میں اٹھتا ہے تو نیند کی کیا مجال کہ وہ انکھوں میں اتر آئے۔

ماڑی میں حیوانیت و شیطانیت کا نشانہ بننے والا عدنان

ایسے میں شدت سے اپنی بے بسی پر رونا آتا ہے ۔میرا دل چاہتا ہے کہ الفاظ و زبان سے ایسا کہرام بپا کردوں کہ تحصیل لورہ سے جڑا ہر شخص کان پکڑ لے ،مگر “میرے الفاظ ،میرا قلم ،میری زبان پر علاقے کی عزت کے تالے ہیں ” اور یہی لفظ میری بے بسی کا اعتراف کرنے کے لیئے کافی ہیں ۔سانحہ ماڑی پر مقامی آبادی کا کردار قابل ستائش تھا مگر کب تلک ؟ہم بنیادی طور پر جذباتی مخلوق ہیں ،کوئی بھی واقع ،سانحہ دیکھ کر وقتی طور پر جذبات میں بہہ جاتے ہیں اور ساری توانائیاں چند دنوں میں خرچ کر لیتے ہیں اور بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ ہمیں اپنی بھڑاس نکالنے کے لیئے موقع مل جاتا ہے مگر وہ بھی صرف دو چار دن۔اس کے بعد ہمارے لیے یہ ایک خبر ہی وہ جاتی ہے ،نہ مظلوم فیملی کی جانب مڑ کے دیکھتے ہیں نہ انکا احوال پتہ کرتے ہیں ۔کیونکہ ہم نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرکے اپنا فرض ادا کر دیا تھا ۔نتیجتن اگلے ہفتے ایک نیا سانحہ ایک نیا ظلم ہمارے سامنے ہوتا ہے” بقول منیر نیازی ! ایک اور دریا کا سامنا منیر مجھ کو تھا”۔نڑیلہ ٹائیں گلی کی مقتولہ کوثر بی بی کا قتل ہو ،گھمبیر میں دوہرا قتل یا لورہ بازار میں رحیم یار خان سے آئے دندناتے قاتل کی کارستانی ہو ہمارا ردعمل مثالی رہا ہے اور اب !

آہ! غازیان و ذیشان

بقول احمد فراز

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز! ظالم اب کےبھی نہ روئے گا تو مر جائے گا” ننھے غازیاں و ذیشان کے جسد خاکی نہیں تھے بلکہ پھول مرقد کی جانب جا رہے تھے اور کتنے خوش نصیب نکلے دونوں ننھے پھول ،مرقد میں بھی دادای کے پہلو میں سوئے ہیں ،یہ دادی پوتوں کا مرقد نہیں تھا پیار و محبت کا تاج محل تھا دونوں بھائی دنیاوی نفرتوں سے دور ،کہیں بہت دور پربتوں کے دیس میں جا کے میٹھی نیند سو گئے ۔خود تو میٹھی نیند میں ہیں مگر ہماری انکھوں سے نیندیں اڑا گئے ہیں اور ہماری نیندیں کیوں نہ اڑیں ننھے ذیشان کا ایک ہم عمر ہمارے پہلو میں بھی ہے ،ننھے ذیشان سے تھوڑی سی چھوٹی ایک ننھی پری ہماری گود میں بھی ہے ،جو توتلی زبان میں بڑے ابا بڑے ابا کہہ کے پکارتی ہے ۔ننھے پھولوں تمارا غم ہم کیسے بھول سکتے ہیں جب ہم اپنے گلشن کے پھولوں کو دیکھتے ہیں تو تمارے لہو میں لت پت لاشے ہماری انکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں ۔ہم اپنے پھولوں کو سوئی چبوانے جیسا درد برداشت نہیں کر سکتے تم نے اپنی ننھی سی جان پر چھری کا وار کیسے برداشت کیا ؟ معاف کرنا ننھے شہزادو! اس سے آگے شاید الفاظ بھی ساتھ نہیں دے رہے ہیں ۔البتہ ایک سوال اپنے قانون ساز اداروں سے ضرور کرنا چاہتا ہوں ۔کیا فائدہ اربوں روپے کے اخراجات کا ؟جب آپ عدنان کا سر کچلنے والے کو 24 گھنٹوں میں پھانسی پر لٹکانے کا قانون نہیں بنا سکتے ؟ کیا ضرورت ہے ان عالیشان عمارتوں کا جب آپ ننھے شہزادوں غازیان و ذیشان کے معصوم گلوں پر چھری چلانے والے کو اگلے لمحے ہی سرعام تختہ دار پر نہیں لٹکا سکتے ۔اگر یہ سب ممکن نہیں ہے تو یہ دوکانیں بند کردیں ،ہمارے اوپر جنگل کا قانون لاگو کر دیں جہاں سستا اور فوری انصاف ملتا ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں