ویلڈن ایبٹ آباد پولیس! آپ نے ہزارہ کی غیرت کی لاج رکھ لی:نقطہ اصغر چوہدری

لورہ بازار میں خاتون کا سفاکانہ قتل کیا ہوا کہ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی ،تحصیل لورہ سے تعلق رکھنے والے سمندر پار پاکستانیز جہاں کہیں تھے مسلسل رابطہ کرکے تفصیلات مانگ رہے تھے تاہم سرفراز سکولز اینڈ کالجز کی انتظامیہ کی جانب سے لگائے جانے والے سیکیورٹی کیمروں نے کمال کر دکھایا سی سی ٹی وی فوٹیج نے پوری واردات کو محفوظ کر لیا ۔یہ پانچ جولائی 2021 کی سہہ پہر کا واقعہ ہے کہ تحصیل لورہ کے مرکزی بازار سے محض چند ہزار گز کے فاصلے پر ایک رکشہ رکتا ہے جس میں سے ایک خاتون اور تین مرد اترتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک شخص پستول تان لیتا ہے موقع پر موجود مرد کوشش کرتے ہیں کہ گولی نہ چلے مگر جب بات بنتی نظر نہیں آتی تو جس کا جدھر منہ اٹھتا ہے اسی جانب بھاگ نکلتا ہے ۔چادر میں ملبوس خاتون بھاگ کے جان بچانے کی کوشش کرتی ہے مگر سفاک قاتل پیچھے بھاگ رہا ہوتا ہے اسی اثناء میں خاتون سکول کے مرکزی دروازے کے پاس گرتی ہے اور قاتل خاتون کے جسم پر گولیاں اتار کے ایک جانب بھاگ جاتا ہے۔یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ضرور تھی مگر کسی نے پرائی آگ میں کودنے کی جرأت نہ کی اور ایک غیر مقامی قاتل یقینا جسے یہاں سے نکلنے والے راستوں کا بھی پوری طرح اندازہ نہیں تھا کسی چھلاوے کی طرح غائب ہوگیا. جب پولیس تھانہ لورہ موقع پر پہنچتی ہے تو ابتداء میں اسے تصویر کا درست رخ ہی نہیں دکھایا جاتا ،بڑی تگ و دو کے بعد ملزم کا نام اور سکونت کا پتہ چلتا ہے ،کیمرے سے شکل بھی واضح نہیں ،سوشل میڈیا پر ایک طوفان بپا ہے کہ رحیم یار خان سے آ کر ایک شخص نے خاتون کو مار دیا اور بھاگ گیا ۔ہر جانب علاقے کی غیرت و عزت پر حملے کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں ویسے بھی ہم سوشل میڈیا پر خاصے جذباتی ہو جاتے ہیں. پولیس کے لیے بھی یہ کیس ایک چیلنج بن چکا تھا سینکڑوں میل دور سے آ کے ایک سفاک ملزم نے خاتون پر گولیاں چلاہیں اور بھاگ گیا ایس ایچ او لورہ کیڈٹ نواز جن سے صرف ایک ہی سرسری ملاقات ہوئی تھی جب رات گئے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ ہماری پولیس لورہ کے خارجی راستوں کی جھاڑیوں،جنگلوں ،گھاٹیوں اور پہاڑیوں میں ملزم کو مسلسل تلاش کرنے میں مصروف ہے ۔ضروری تفصیلات کے ساتھ ہی کیڈٹ نواز نے ایک درخواست کی کہ ابھی کوئی انفارمیشن خبر کی صورت میں شئر نہ کریں کہ مبادا کہیں ملزم ہوشیار نہ ہو جائے ۔چونکہ الحمد اللہ وول نیٹ ورک اس سرکل کا مقبول ترین نیٹ ورک ہے اس لیئے ہم نے بھی کامل ذمہ داری کو ثبوت دیتے ہوئے صرف عوام سے مدد کی اپیل کی اور خود بھی ستو پی لیئے ۔۔

پولیس پر تو عوامی پریشر تھا ہی تھا ہمیں بھی کڑوی کسیلی باتیں سننے کو مل رہیں تھیں کہ غریب گھرانہ ہے اس لیئے آواز بلند نہیں کرتے ،ہم اپنے فالورز کو مطمن کرنے کی کوشش کرتے اور ساتھ پولیس سے بھی مسلسل رابطے میں تھے ،پولیس کیا کر رہی ہے ہمارے پاس انفارمیشن بھی تھی مگر یہاں معاملہ علاقے ،ضلع اور ہزارہ کی عزت کا تھا اس لیئے خاموشی کا تالا لبوں پر لگائے رکھا پتہ نہیں کیا بات تھی کہ مجھے تھانہ لورہ پولیس بالخصوص ایس ایچ او لورہ کیڈٹ نواز کی پر اعتمادی پر پورا یقین تھا کہ ہم کامیاب ضرور ہونگے تاہم وقت تیزی سے گزرتا رہا اور ایسا لگا کہ ہماری پولیس نے بھی روایتی ڈنگ ٹپاو پالیسی اپنا رکھی ہے اور ہمیں بھی محض طفل تسلیوں پر رکھا ہوا ہے البتہ یہ الگ بات تھی کہ پولیس اپنا کام کر رہی تھی کیونکہ یہ ہزارہ پولیس کے لیے بھی غیرت کا معاملہ تھا اور بالاآخر بارہ روزہ جہد مسلسل کے بعد ملزم پولیس کے شنکجے میں تھا

ملزم کی گرفتاری کے لیئے پولیس کو کیا پاپڑ بیلنے پڑے یہ ایک لمبی کہانی ہے ،مگر جو اصل بات ہے وہ وسائل کا نہ ہونا تھا ،مقتولہ کا خاندان غریب تھا اور کسی بھی ملزم کی گرفتاری کے لیئے لمبی بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے اور اس میں مدعی مقدمہ کے تعاون کے بغیر کامیابی کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ،یہ واحد کیس تھا جس میں نہ تو سول سوسائٹی مالی مدد کر رہی تھی اور نہ ہی مقتولہ کے خاندان میں کوئی خوشحال تھا ۔پولیس تھانہ لورہ اس کیس کو فائل پر یہ لکھ کئ داخل دفتر بھی نہیں کر سکتی تھی کہ “ملزم کی تلاش جاری ہے” کیونکہ معاملہ ہزارہ کی غیرت کا تھا ،رحیم یار خان جنوبی پنجاب کے کچے کے علاقے سے ایک سفاک قاتل آ کے لورہ بازار میں ایک خاتون کو قتل کر دے اور پکڑا نہ جائے یہ اہلیان تحصیل لورہ ،ایبٹ آباد پولیس اور ہزارہ کی عزت و غیرت کا مسئلہ بن چکا ہے

ایس ایچ او لورہ کیڈٹ نواز نے اس ملزم کی گرفتاری کو اپنے لیئے اور اپنے محکمے کے لیئے ایک چیلنج بنا لیا ،ملزم کے تعاقب میں جنوبی پنجاب کے چکر بھی لگانے پڑے ،جنگلوں و آبادیوں کی خاک چھاننے کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ چھاپے بھی مارنے پڑے اب علم نہیں کہ افسران بالا نے بھی اس کیس کو اپنی انا کا مسلہ بنایا تھا یا صرف یہ تھانہ لورہ کی انا کا مسئلہ تھا۔البتہ کامیابی سے اللہ تعالی کی ذات نے ہمکنار کیا

پانچ جولائی کو ہونے والا یہ واقعہ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس علاقے میں اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ تھا ،یہاں کوئی پنجاب و سندھ کی طرح عورتوں کے قتل کے واقعات رونماء نہیں ہوتے بلکہ دشمنیاں بھی مردوں کی طرح نھبائی جاتی ہیں اس لیئے اس ملزم کی گرفتاری ہر حال میں ہونی چاہیے تھی ۔لورہ پولیس نے ایبٹ آباد پولیس کی شان بڑھائی ہے اور ہزارہ کی عزت کی رکھوالی کی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ایبٹ آباد و ہزارہ پولیس کے بڑے اتنا بڑا کام کرنے والے ایس ایچ او لورہ کیڈٹ محمد نواز اور انکی ٹیم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کوئی میڈل،کیش انعام اور سرٹیفکیٹ دیتے ہیں یا صرف “ویلڈن جوان”کا لقب ہی ملتا ہے ۔مجھے کامل یقین ہے کہ اس سارے معاملے پر خرچ ہونے والے وسائل لورہ پولیس نے اپنی جیپ سے برداشت کیئے ہیں ،ڈی آئی جی ہزارہ اور ڈی پی او ایبٹ آباد کو چاہیے کہ علاقے کی عزت و غیرت کے لیئے ان شیر جوانوں نے جو اخراجات ذاتی جیب سے برداشت کیئے ہیں وہ انہیں واپس کیئے جائیں ۔ خطہ تحصیل لورہ ویسے بھی غیرت مندوں کا خطہ ہے اور امید واثق ہے کہ اہلیان تحصیل لورہ ہزارہ بھر کی غیرت کی لاج رکھنے والوں کو خراج تحسین ضرور پیش کرینگے ۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں