برادرم شہریار خان نے روزنامہ اسلام آباد ٹائمز کی ادارت سھنبالی تو حکم دے دیا کہ ”اپنے کالم بھیجو“ ساتھ ہی عزیزم انوار عباسی نے ”روزنامہ سپریم“ کی نئے سرے سے لانچنگ کی تو یہی حکم ہوا،البتہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ”اکتوبر“ کے جلوے تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے،بالخصوص چھ اکتوبر سے شروع ہونے والی ایک نئی ”سیریز“اور پھر لاہور والوں کی اسلام آباد آمد کی بازگشت اتنی شدید تھی کہ اس ماحول میں کالم لکھنا اپنے عزیز ساتھیوں کو کسی نئے امتحان میں ڈالنے کے مترداف تھا،برادرم شہریار خان نئے نئے ایڈیٹر بنے تھے اس لیئے ان کی کرسی کو کسی خطرے سے دوچار کرنا میرے لیئے بھی ممکن نہیں تھا۔البتہ اس سارے عرصے میں یہ ضرور ہوا کہ کالم لکھتا گیا،خود ہی پڑتا گیا اور بالاآخر انہیں پھاڑ کے ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیتا۔ اس فائدہ یہ ہوا کہ جتنا خلفشار تھا وہ سارا کاغزوں کی سیاہی پر نکل جاتا ،آج چونکہ 31اکتوبر ہے اور 31اکتوبر کا سورج بھی اپنے ساتھ ساری سفاکیاں لیئے رخصت ہو چکا، بالخصوص شہر اقتدار کوبھی نئے ”پر امن مفاہمتی حل“کی نوید مل چکی ، سو ہم نے بھی ٹھان لی کہ چلیں آج ریکارڈ کی درستگی کے لیئے ایک حد کالم لکھ ہی دیتے ہیں،اب علم نہیں کہ اس کالم کی اشاعت کے بعد کونسا ”سرٹیفکیٹ“ ملتا ہے۔
بات کریں اکتوبر کی تو طویل عرصے بعد شہر اقتدار میں ”طوفانی بارش“ اور ژالہ باری بھی اسی مہینے کو ہی دیکھنے کو ملی،جبکہ نوٹیفکیشن،نوٹیفکیشن بھی اچھے خاصے عرصے تک کھیلا جاتا رہا،خدا خدا کرکے نوٹیفکیشن تو آ گیا ہے مگر اس آمد میں جتنی تاخیر ہوئی اتنا ہی بارشی پانی پلوں سے بہہ چکا تھا،اس نوٹیفکیشن کے چکر میں جتنی ہماری جگ ہنسائی دنیا میں ہوئی شاید ہی اس کی کوئی نظیر تاریخ میں ہمیں ملتی ہو،جس طرح کہتے ہیں ناں کہ زلزلے نے آنا تھا آ کے چلا گیا مگر اس کے آفٹر شاکس زیادہ پریشان کن ہوتے ہیں،اب ہمیں انتظار آفٹر شاکس کا ہے کہ ان کی شدت کتنی ہو سکتی ہے،ایسی ہی صورتحال کا سامنا اس وقت اقتدار کی غلام گردشوں کو بھی ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اقتدار کی کرسی کو جتنا زیادہ مضبوط تصور کیا۔اس کرسی نے اتنی ہی جلدی اس سے بے وفائی کی۔اقتدار کی کرسی کے سیاہ و سفید کے مالک سابق صدر پرویز مشرف نے جس قوت کے ساتھ ڈی چوک پر مکا لہرایا تھا ان کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ اتنی جلدی انہیں مکھن میں سے بال کی طرح نکال باہر کیا جائے گا۔
خون آشام اکتوبر کادوسرا رخ ہم نے لاہور سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کی صورت میں دیکھا،جس نے اہلیان پنڈی کو مفلوج تو رکھا مگر ساتھ ہی جرنیلی سڑک کے اطراف میں رہنے والوں کی زندگیاں بھی اجیرن تھیں،دریائے جہلم کے پل کے نظارے ہمیں بہت کچھ سمجھا رہے ہیں،تاہم لاہور سے وزیر آباد تک دونوں اطراف سے مبینہ طور پر جس انداز میں طاقت کا استعمال ہوا اس کا کچھ کچھ اندازہ تو پنجاب پولیس کے شیر جوانوں کے جنازوں پر بننے والی رپورٹس سے تو ہوتا ہی ہے مگر ساتھ ہی مظاہرین کی جانب سے سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہونے والی غیر مصدقہ تصاویر اور وڈیوز بھی یہ سمجھانے کے لیئے کافی ہیں۔بقول شاعر
اکھاں دی لالی دسدی ہے
روئے تسی وی او روئے آسی وی آں
وفاقی وزراء اور حکومتی ترجمانوں کی جانب سے لانگ مارچ کے شرکا کے دشمن ملک کے ساتھ خفیہ رابطوں نے تو ہمارے اوسان ہی خطاء کر دیئے تھے،کہ دشمن ملک اس حد تک ہمارے اندر آ چکا ہے،ہم حیران اور پریشان کے ساتھ ساتھ پشیمان بھی ہوئے کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ ہمارے سلامتی کے اداروں کو اس بات کی بھنک تک نہ مل سکی،کچھ عرصہ قبل تک تو یہ لانگ مارچ والے عاشقان رسولﷺ تھے پھر اچانک یہ کیسے ہوا کہ یہ دشمن ملک کے آلہ کار بن گئے۔ترجمانوں اور حکومتی وزراء کے ان دعوؤں کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ جناب وزیر اعظم کا بیان آ گیا کہ ”ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں ہونے دیا جائیگا،میں نے کسی سے بلیک میل نہیں ہونا“۔جس کے بعد ہمیں خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں ا ب حتمی قدم نہ اٹھا لیا جائے کیونکہ قبل ازیں بھی ہم لال مسجد والوں کی جانب سے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کا انجام بھی دیکھ چکے تھے اور اس انجام کا قوم کو بھگتنے والا خمیازہ بھی ہمارے سامنے تھا۔پیمرا کی جانب سے میڈیا پر ”حکمنامہ“ بھی آ چکا تھا اب علم نہیں کہ جنازے کتنے اٹھے اور کس کے اٹھے؟۔مفتی منیب الرحمن صاحب کا بھلا ہو کہ انہوں نے اپنے ناتواں کاندھوں پر بھاری ذمہ داری ڈالی اور چوہدری شجاعت فارمولا ”مٹی پاٗو“ کے ساتھ میدان عمل میں کودے اور بالاآخر فریقین ایک سیل شدہ معائدے کے ساتھ ”باہمی رضامندی“ کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ ہوئے جو کہ اکتوبر کے آخری ڈوبتے سورج کی پہلی اچھی خبر تھی جس سے ملک بھر کے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا۔
حکومت مطمن ہے کہ بلا سر سے ٹلی،احتجاجی مظاہرین مسرور ہیں کہ معائدے کی صورت میں کامیابی ملی،مگر قوم اضطراب کا شکار ہے کہ اس ساری لڑائی سے حاصل کیا ہوا؟،کیا فرانس کے ساتھ تعلقات منقطع ہو گئے؟،کیا مغرب اب کھبی کوئی گستاخی نہیں کریگا؟،کیا ہم نے مغرب کو معاشی طور پر ناقابل تلافی زک پہنچائی ہے؟ اور ساتھ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اس ”معرکے“ میں شہید کون ہے،پولیس والے جو ڈیوٹی پر تھے اور مظائرین کا نشانہ بنے یا پھر مظائرین جو عشق رسولﷺ کے لیئے سڑکوں پر نکلے اور کسی اندھی گولی،لاٹھی یا پتھر سے جان گنوائی؟اس سوال سمیت شاید کسی بھی سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
جناب وزیر اعظم آپ ”ریاست مدینہ“ کے داعی ہیں،جواب تو آپ کو دینا چاہیے،اگر آج آپ جواب نہیں دیتے تو روز محشر تو جواب دینا پڑیگا،حضرت عمر فاروقؓ کا وہ قول تو یاد ہوگا کہ”دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا رہ گیا تو روز قیامت پوچھ ہوگئی“۔یہاں تو انسانی لاشے گرے ہیں،ہزاروں نہیں لاکھوں کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے اس کی ذمہ داری کون لے گا؟۔معائدے کرکے مکر جانے والوں سے کون پوچھے گا؟ اگر الزام سچے تھے تو سزا کون دیگا اور اگر جھوٹے الزام لگے ہیں تو ”درے“ کسے لگیں گے؟۔احتجاج،ہڑتال،لانگ مارچ کی سولی یہ قوم کب تک چڑھتی رہے گی؟۔