لوک ورثہ ! کالم شالم !تحریر شکیل اعوان

کالم شالم
”لوک ورثہ“
لوک ورثہ جیسا کے نام سے ہی ظاہر ہے
لوگوں کی وراثت رہتل وسیب طرزِزندگی معاشرت علم ادب لوک دانش لوک گیت اسلام آباد جیسے بےکلچرے شہر میں ہرسال سجایا جاتا ہے وطنِ عزیز کے طول وارض سے فنکار دستکار بُلاے جاتے ہیں اور دنیا کو دیکھایا جاتا ہے کہ یہ تھا ہمارے آباواجداد کا طرزِ معاشرت
چاروں صوبوں اورکچھ سالوں سے آزاد کشمیر کو بھی لوک ورثہ میں نماہندگی دی جانے لگی ہے جس پر ہمیں خوشی ہے مگر افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ سندھ بلوچستان پنجاب خیبر سے لوگوں کو بُلا لیا جاتا ہے مگر لوک ورثہ کے منتظمین کی قریب کی نظر کمزور ہے جو مری ھزارہ کو ہربار فراموش کردیا جاتا ہے یا اربابِ لوک ورثہ مری وھزارہ کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتے یا ہماری ثفافت کسی سے کم ہے یا ہمارے آباواجداد کی کوی معاشرت نہیں تھی ؟


افسوس کا مقام ہے چند بیروکریٹ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس ثقافت کو دیکھانا ہے کس کو نہیں یہ ملازم لوگ کیا جانے ثقافت کس چڑیا کا نام ہے یہ اپنی تنخواہ یا فنکاروں کے بجٹ سے” ٹُک“ کر کھانے والے فقط اپنے منظورِ نظر لوگوں کو بُلاتے ہیں جو فنکار کم خرکار زیادہ ہوتے ہیں ایک وقت تھا نوے کی دھای کا جب ھزارہ پویلین الگ سےلگتا تھا ھزارہ کے دستکاروں فنکاروں سے میلہ سجتا تھا اسلام راولپنڈی میں بسنے والے ھزارے وال و مری وال اپنے کلچر وثقافت کو دیکھنے سننے کیلے آتے تھے اُسوقت بھی کچھ پشتون بیروکریٹوں کو یہ بات چبتی تھی اور پھر اُنہوں نے ہمارا پتہ ہی صاف کرادیا اوپر سے نااہل نکٹھو نکمے نماہندے جنکو ثفاقت کلچر کا شعور ہی نہیں نہ ماں بولی ہندکو پہاڑی کا کچھ احساس ہے کبھی اپنے فنکاروں دستکاروں کیلے کوی آواز تک نہیں اُٹھای ڈاکٹر اظہرخان ھزارہ آباسین کا ناٸب صدر ہونے کے باوجود پی این سی کی کیمٹی کا ممبر ہوکر بھی کبھی آواز تک نہ اُٹھا سکا مرتضی عباسی ڈپٹی سپیکر ہوکر بھی یاد دلانے کےباوجود کچھ نہ کرسکا مشتاق غنی ہرحکومت میں شامل ہونے کے باوجود اور ھزارہ آباسین کے اسٹیجوں سے منت ترلے کر کے تقریریں سٕیاست میں آنے کے باوجود علی خان نوجوان ہونے کے باوجود فقط دعاجنازے سے آگے نہیں بڑھ سکا یہ لوگ فقط ووٹ لینے کا ہنر جانتے ہیں ماں بولی یا ثقافت کا سماج میں کیا مقام ہے یہ بےشعور لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے خیبر وزارتِ فن وثقافت سے ھزارے کا حصہ تک نہیں لے سکے یہ لوگ نالی کھنبے گٹر لاہن سے کبھی اوپر اُٹھ ہی نہیں سکے انکی اپروچ فقط یہیں تک ہے
بس چند فنکار ادیب شاعر ہیں جو اپنی ماں بولی ثقافت کیلے اپنی مدد آپ کام کرتے رہے ہیں سابقہ سیکٹری ھزارہ آباسین آرٹس کونسل جمیل عباسی جب تک روبہ صحت تھے فن وثقافت کیلے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے تھے پھر کلچر میں ایگری کلچر کے لوگ گھُس گہے آج یہ حالت ہے ھزارے کے فنکاروں کا کوی پرسانِ حال نہیں حالانکہ لوک ورثہ سے مری وھزارہ کے فنکاروں کا فاصلہ سب صوبوں سے کم ہے مگر آج تک اقتدار میں بیٹھےکسی شخص کو یہ بات عقل میں نہیں آی کہ ہماری بھی کوی پہچان ہے ثقافت ہے ادب ہے! ہم نے مقدور بھر کوشش کی شاھدخاقان عباسی جب وزیراعظم تھے کہ ہندکو پہاڑی کیلے کچھ کام کیا جاے مگر وہی بات ”لمے جنڑیں نی عقل گٹیاں وچ“ اُن کو نہ ثقافت کی سمجھ نہ ادب کی سو ہم خاموش ہوگہے اور سمجھ گہے یہ وہ مٹیرٸل ہی نہیں ؟


سو لوک ورثہ کہاں سے سمجھیں گے یوں بھی پاکستان میں سارے ادارے انحطاط پزیر ہیں ڈھنگ ٹپاو پالیسی رکھتے ہیں اداروں کے ملازموں کو اپنی تنخواہ سے غرض ہے ثقافت ادب جاے بھاڑ میں اُنکی بلاسے؟ ہمکو سندھی بلوچی پنجابی بیروکریسی پر رشک آتا ہے وہ جیسے بھی ہیں کم سے کم اپنی ماں یعنی ماں بولی سے مخلص تو ہیں سال بعد ہی سہی اپنی ماں بولی کی ترویج کیلے کچھ تو کرتے ہیں ایک ہمارے نکھٹو ہیں جو اپنے پیٹ سے آگے سوچنے کی صلاحیث ہی نہیں رکھتے
کل لوک ورثہ ختم ہوجاے گا مجھ کو لوگ فونیں کرکے پوچھتے ہیں آپ کب آہیں گے ھزارہ مری کی ثقافت کو کب نماہندگی ملے گی تو بس عرض یہ ہے ہم بن بلاے کہیں نہیں جاتے بہ قول انیس
”کسی رہیس کی محفل کا زکر کیاہے انیس
خداکے گھر بھی نہ جاہینگے بے بُلاے ہوے “
تو اپنے نماہندوں کو ووٹ دینے سے پہلے پوچھ لیا کریں کہ ہماری ماں بولی ہماری ثقافت کیلے آپ نے کیا کیا ؟
شاھد وہ کچھ بتا سکیں سیانے کہتے ہیں
”جاگدٕاں دے کٹے تے ستیاں دیاں کٹیاں“
باقی خیبر والوں کا تعصّب اپنی جگہ اُس پر پھر بات ہوگی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں