آملے کا سواد ! نقطہ: اصغر چوہدری

حاجی صاحب کے ساتھ طویل عرصے کے بعد ملاقات ہو گئی،خیر ہم نے نظر بچا کے پتلی گلی سے نکلنے کی بڑی کوشش کی مگر پکڑے ہی گئے،حاجی صاحب سے جان کو تو خطرہ لاحق نہیں مگر ان کی وجہ سے ”سوفٹ ویئر“ اپ ڈیٹ ہونے کا خدشہ ہر وقت لگا رہتا ہے،ماشاء اللہ حاجی صاحب پاکستان سے بھی عمر میں بڑے اور زمانے کی گرم سرد موسموں سے نکلنے والی پر اثر شخصیت کے مالک ہیں البتہ سوالات بہت کرتے ہیں۔
الغرض حاجی صاحب نے علیک سلیک کے بعد ہاتھ پکڑا اور ہم قریبی چائے کے ڈھابے پر پہنچ گئے،کافی دیر خاموش رہنے کے بعد حاجی صاحب گرم اور کڑک چائے کی چسکی لیتے ہوئے گویا ہوئے ”میاں! تم صحافی لوگ آجکل جان چھڑانے کے چکروں میں کیوں پڑے رہتے ہو؟،تم لوگوں کو اپنے فرض کا خیال ہی نہیں،پتہ نہیں حقیقت سے کیوں نظریں چرا رہے ہو؟ حاجی صاحب کے پے درپے سوالات سے میں ہڑبڑا گیا اور منمناتے ہوئے عرض کیا،حاجی صاحب آ پ کو لازما کوئی غلط فہمی ہوئی ہے،صحافی تو اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔یہ سنتے ہی حاجی صاحب حسب معمول بھڑک اٹھے اور میں سوچنے لگا آج خیر نہیں،حاجی صاحب گویا ہوئے! خاک ڈٹے ہوئے ہو،سچ کا قلم اٹھایا ہے تو سچ لکھو بھی اور بولو بھی،لوگ مہنگائی،غربت،بے روزگاری،لاقانونیت سے عاجز آ چکے ہیں تم لوگ کب بولو گئے؟ کب تمارا قلم سچ لکھے گا؟۔جان بچتی نظر نہ آئی تو عرض کیا حاجی صاحب آج کل ہم مثبت صحافت کر رہے ہیں،بس مثبت مثبت خبریں دیتے ہیں جبکہ آپ کو چٹ پٹی خبریں اچھی لگتی ہیں۔یہ سنتے ہی حاجی صاحب کا غصہ اپنے عروج پر پہنچ گیا،جذبات سے سرخ چہرے کے ساتھ گویا ہوئے کھبی آغا شورش کاشمیری کو پڑا ہے،وقت کے حکمران بھی ان کا سامنا نہیں کرسکتے تھے،حبیب جالب،فیض احمد فیض،احمد فراز کو بھی دیکھا ہے،آج وہ تاریخ میں زندہ ہیں،ان کے نام کے نعرے وہ بھی لگا رہے ہیں جنکے ادوار میں وہ پابند و سلاسل تھے،تم لوگوں کو کس نے کہا کہ تم نوکری کر رہے ہو؟صحافت نوکری نہیں،کلرکی نہیں بلکہ ایک مشن ہوتا ہے،کھبی صحافت کی الف ب پڑھ لیتے تو یہ باتیں مجھ سے نہ کرتے۔
حاجی صاحب کے چبھتے نشتر ہنس کے برداشت کرتے ہوئے عرض کیا،جی حاجی صاحب آپ بجا فرماتے ہیں،مگر کیا کریں آجکل ہڈیوں کے پرانے درد ٹھیک کرنے والے فزیوتھراپیسٹ نے بھی ایک وزٹ کی فیس دو ہزار روپیہ کر دی ہے۔ہمارے ایک دوست ہیں شہریار خان انہوں نے بھی صحافیوں کا حق دلوانے کی کوشش کی تھی بس پھر ”ادارے کو آپ کی ضرورت نہیں“ کا جواب ملا،اسی طرح ہمارے ایک ساتھی احمد منصور نے پنڈی کی بڑی پریس کانفرس میں میں ایک سوال ہی تو کیا تھااور پھر واپسی پر اس ادارے کو بھی انکی ضرورت نہیں رہی حالانکہ لاکھانیز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے اداروں سے اس طرح کک آوٹ نہیں کیا جاتا،حاجی صاحب جالب و آغا صاحب کے ادوار میں سوسائٹی اہل قلم کی پشتیبان تھی اب معاشرہ تبدیل ہو چکا ہے،جسمانی گزند جو نہیں پہنچا سکتے وہ سوشل میڈیا پر کردار کشی سے روح تک کو چھلنی کر دیتے ہیں،جسے چھ چھ ماہ تک تنخواہ نہیں ملتی اسے ”لفافی“ کا ٹائٹل مفت میں مل جاتا ہے۔آج آ پ کو بڑے بڑے صحافی اداروں کے باہر بیٹھے یو ٹیوب پر یہ کہتے ملیں گئے کہ بیل آئیکون دبا دیں،آخر ایسا کیوں حاجی صاحب؟ کیا صحافی اپنے باپ دادا کی جاگیر کی لڑائی لڑ رہے ہیں؟فاقے بھی برداشت کریں اور روح پر گھاؤ بھی کھائیں۔
حاجی صاحب میری جذباتی تقریر سے خاصے متاثر لگ تھے مگر جب بولے تو یہ میری غلط فہمی بھی دور ہو گئی۔کہنے لگے پتر! اگر مزے کرنے تھے ناں تو سول سروس جوائن کرتے،کاکول چلے جاتے،کسی دفتر میں بابو شابو بن جاتے صحافی کیوں بنے ہو؟ کیا تمیں نہیں علم کا صحافت کا راستہ پرخار ہے،تم سمارٹ فونز لیئے،ٹائی شائی لگائے،وزیروں مشیروں کے دفتروں،فایؤ سٹارز ہوٹلوں میں بیٹھ کے سمجھ لیتے ہو کہ تم بہت بڑے طرم خان بن گئے،تاریخ میں زندہ جن صحافیوں کو میں جانتا ہوں وہ کسی وزیر مشیر تو کیا وقت کے صدر وزیر اعظم تک کو منہ نہیں لگاتے تھے مگر جب وہ پریس کانفرس میں سوال کرتے تھے تو حکمرانوں کے پسینے چھوٹ جاتے تھے،ذرا اپنے گریبان میں جھانکو،آجکل تمارے سوالات کیا ہوتے؟ ایک وزیر منہ پر جھوٹ بول رہا ہوتا تم میں جرات نہیں ہوتی کہ اسے جھٹلا سکو،ابھی کل ہی کی بات ہے کچھ لوگ انڈین ایجنٹ بنے تھے،تم وہاں موجود تھے،کیا تم نے جرات کی کہ اس وزیر کی بات کو روک سکو اور کہہ سکو ہم آپ کا یہ جھوٹ سننے نہیں بیٹھے،اگلے دن تم لوگ وہیں تھے اور وہی انڈین ایجنٹ ملک کے مفید اور محب وطن شہری بن گئے،تم لوگوں نے پوچھا کہ جناب وزیر صاحب یہ کیا ٹوپی ڈرامہ کر رہے ہیں کل تک تو آپ انہیں انڈین ایجنٹ کہہ رہے تھے آج محب وطن شہری کیسے بن گئے؟مگر نہیں تم لوگ یہ جرات نہیں کر سکے،حاجی صاحب بولے جا رہے تھے اور میری حالت ایسی کہ کاٹو تو لہو نہیں،تاہم حاجی صاحب رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے لگتا تھا کہ آج ساری توپوں کا رخ ہماری طرف ہی ہے،دوبارہ گویا ہوئے،میاں تم لوگ موم کے بنے نہیں ہو،سچ کے پہرے دار ہو،تم لوگ بائیس کروڑ عوام کی دھڑکن ہو،ہم نے ایک ایک سطر خبر سے حکومتیں الٹتی دیکھی ہیں۔ایک صحافی کا کیا کام ہے کہ وہ شاہ کا ہمنواء بنے،تم نقاد ہو مداح نہیں،تمارا کام واچ ڈاگ والا ہے واہ واہ کرنا نہیں،تم لوگ معاشرے کا آئینہ ہو جس میں صرف سچ نظر آنا چاہیے اور سچ کے راستے پھولوں کی سیج نہیں ہوتی،کانٹے ہی کانٹے ہوتے ہیں،جب تم صحافی بنو کے تو تمارا سجن کوئی نہیں ہوگا مگر دشمن ہر کوئی ہوگا۔تم کہتے ہو کہ جو بولتے تھے لکھتے تھے آجکل وہ بیل آئیکون دبانے کی درخواستیں کرتے پھر رہے ہیں یہ تم ان سچے صحافیوں کی توہین کر رہے ہو،کھبی غور کیا ہے کہ لوگ ٹی وی سکرینیں چھوڑ کے موبائل پر کیوں منتقل ہوئے ہیں،زرا چیک کیا ہے کہ ان کے دیکھنے والوں کی تعداد کیا ہے؟کسی روز صبح صبح اخبار مارکیٹ چلے جاؤ اور اپنی مثبت خبروں والی اخبارات کی سرکولیشن اپنی انکھوں سے دیکھ لو تو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ قوم اب بے وقوف نہیں رہی ہے،یہ قوم سچ اور جھوٹ کی کسوٹی کو پہچانتی ہے،بڑے بڑے اخبارات کی سرکولیشن ہزاروں میں آ گئی ہے اور یہ بیل آئیکون والے لاکھوں میں چلے گئے ہیں۔اٹھو اور کلمہ حق کہو،نہیں کہہ سکتے تو صحافت کو چھوڑو کوئی اور شغل میلہ کر لو کیونکہ صحافت شغل میلہ نہیں ہے،تم لوگوں نے 2014میں شغل میلہ لگایا تھا اب نتائج بھگتو،یہ ملک ایک نظریے کے تحت وجود میں آیا تھا،ملیں لگانے اور جزیرے خریدنے کے لیئے نہیں بنا تھا،حد ہے تماری سفاکیت کی جس ملک میں گنا سڑکوں پر خراب ہوتا تھا اس ملک میں چینی کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں،گندم میں خود کفیل ملک اپنے کھانے کے لیئے گندم باہر سے منگوا رہاہے اور تم لوگوں کو صرف ”مثبت“ خبروں کی پڑی ہے۔حاجی صاحب یہ کہتے ہوئے ناراض ہو کے چلے گئے اور میں سر جھکائے گھر کی طرف چل پڑا۔حاجی صاحب غلط تو نہیں کہہ رہے ہیں،ہم نے ہمیشہ اس ملک کے ساتھ کھیلواڑ کیا ہے،نت نئے تجربات کیئے ،کپتان سے بڑی امیدیں تھیں مگر کپتان بھی مصلحت کا شکار ہوا،جہاں کتوں اور بلیوں کے لیئے خوراک ڈالروں میں درآمد کرنی پڑے اس ملک میں بحران تو سر اٹھائے گا،جب سو ڈالرز کی برآمدات ہونگی اور 230ڈالر کی درآمد ات کیجائینگی تو ڈالرز کے نرخ آسمان تک تو جائینگے۔ہماری سپر مارکیٹس میں کتوں اور بلیوں کا شمپو تک قرضوں کے ڈالرز سے درآمد ہوتا ہے،ہم سیب نیوزی لینڈ سے اور چاکلیٹ سوئزرلینڈ سے کیوں منگواتے ہیں،کیا اس ملک میں سیب نہیں ہوتے،یہ وہ درآمدات ہیں جو صرف پانچ فیصد کے لیئے کی جاتی ہیں اس ملک کی 95فیصد آبادی کو اس کی تو ضرورت ہی نہیں اور شاید انہیں تین وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا،ہم مہ خور بھی ہیں مگر قرض کی مہ پینا چاہتے ہیں،کب تک ہم ”مثبت مثبت“ کھیلتے رہینگے،ہم کھل کے کب کہیں گئے کہ تمارے ان اللوں تللوں کا بوجھ ہم کیوں اٹھائیں اور حاجی صاحب کی سب باتوں سے اتفاق سو فیصد مگر کچھ فرائض عوام کے بھی ہیں وہ بھی خالی خولی کے زندہ بار مردہ باد کے نعروں سے باہر نکلیں اور سچ کو پرکھیں،سچ سننے اور دیکھنے میں بڑا کڑوا لگتا ہے مگر آملے کی طرح اس کا سواد ہمیشہ بعد میں آتا ہے اور جھوٹ تو ویسے بھی بہت خوشنما اور کانوں میں میٹھا میٹھا رس گھولتا ہے مگر مٹھاس کا دوسرا نام شوگر ہے جو ہڈیوں کو بالخصوص کھوکھلا کر دیتی ہے،اب فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ آملے کا سواد لینا یا شوگر کی بیماری اپنے نام کرنی۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں