پارلیمنٹ سے شاہراہ دستور پر مارگلہ ہلز کی جانب نکلیں تو پنجاب ہاوس اور معزز جج صاحبان کے لیئے مختص”ججز کالونی“ کے بالکل سامنے ٹریل فائیو ہے،جہاں شہر اقتدار کے ”بابو“ دن بھر کرسیوں پر براجمان رہنے کے بعد تھکن اتارنے اور ہلکی پھلکی وزرش کرنے ”ٹریل ہائیکنگ“ کے لیئے نکل جاتے ہیں جبکہ شہر کے صحافی بھی دن بھر کی تھکان اتارنے کے لیئے اسی جگہ کا رخ کرتے ہیں،یہاں کے پکوڑے اور گڑ والی چائے کا اپنا ہی ”سواد“ ہے۔
پارلیمنٹ کی راہداریوں کی خاک چھاننے کے بعد ہم بھی ٹریل فائیو پر بیٹھے گرم چائے کی چسکیاں لے رہے تھے کہ ایک طرف سے حاجی صاحب نمودار ہوئے اور ان کا رخ ہماری جانب ہی تھا،ہم نے جان بچانے کی کوشش کی مگر ماضی کی طرح یہ کوشش بھی بے سود ثابت ہوئی،رسمی علیک سلیک کے بعد ایک مزید کڑک اور گڑ سے بھرپور چائے کا آرڈر دیتے ہوئے حاجی صاحب نے گلہ صاف کیا اور گویا ہوئے،میاں کیا چل رہا ہے؟،خیر خبر کیا ہے،ہم نے بھی فرشی سلام کرتے ہوئے مثبت جواب دیا ”قبلہ حاجی صاحب ستے خیراں نے،راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے،ہر جانب سکھ ہی سکھ ہے۔ہماری بات سنتے ہی حاجی صاحب طنزیہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے،میاں کیا بات ہے آج کل مزاحمتی صحافت کا جنون اتر گیا؟دوسروں کو مالشیے پالشیے کہتے کہتے خود ہی پالش شروع کر دی؟یا لفافے پکڑنا شروع کر دیئے؟۔
حاجی صاحب کا طنز میری روح تلک کو چھلنی کر رہا ہے،ایک جانب طویل بے روزگاری،دوسری جانب خود کشی کرنے والے کراچی کے صحافی فہیم مغل کا مسکراتا اور زندگی سے بھرپور چہرہ میری نظروں کے سامنے تھا،حاجی صاحب کے نشتر نظریں اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑ رہے تھے،میری جھکی نظروں کو بھانپتے ہوئے حاجی صاحب کسی ماہر جلاد کی طرح گویا ہوئے ”میاں نظر اٹھا کے بات کرو،نظریں جھکانے سے سچائی چھپ نہیں سکتی،کسی سیاست دان کی ذرا سی غلطی تماری بریکنگ نیوز بنتی ہے یا بتاؤ یہ کرورنا کی امداد میں کیا ہیر پھیر ہے؟،لندن میں ہمارے ملک صاحب کے ساتھ کیا ہوا؟تم اتنے ہی پاکباز ہو تو مریم نواز کی آڈیو ٹیپ میں تم ڈھیر کیوں ہوئے؟کس نے کتنے پیسے پکڑے؟کس اینکر کی زبان کس طرح بند ہوئی،ذرا ان سچائیوں سے بھی تو پردہ اٹھاو ناں،بڑے زندہ ہے صحافی زندہ ہے کے نعرے مارتے رہتے ہو“۔
حاجی صاحب کے پے درپے سوالات جھنجوڑرہے تھے مگر ہم نے بھی ”مثبت“ صحافت کا عہد کیا ہوا تھا،عرض کیا حاجی صاحب کرورنا ریلیف فنڈز میں کچھ بھی نہیں ہوا وہ اپنے آڈیٹرز صاحبان کو تھوڑی سی غلط فہمی ہو گئی تھی جو ٹھیک ہو جائے گئی ویسے بھی ہماری پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بیچاری ابھی تک تو 1995/96کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لے رہی ہے جب تک ان آڈٹ اعتراضات کی باری آنی ہے اکثریت اس دنیا سے کوچ کر چکی ہو گئی اور ویسے بھی ثابت کچھ نہیں ہونا اور آپ کون سے ملک صاحب کی بات کر رہے،کہیں ملک اللہ رکھا صاحب کی بات تو نہیں کر رہے،میں بات کر رہا تھا کہ حاجی صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ ہوتا جا رہا ہے ابھی میں سابق وزیر اعظم مریم نواز کی آڈیو ٹیپس کی تعریف و توصیف شروع کی ہی تھی کہ حاجی صاحب نے گرجدار آواز میں کہا ”خاموش“میں چپ ہو گیا۔
حاجی صاحب غصے سے مخاطب ہوئے ”اے ملک اللہ رکھا کہڑا اے؟میں بحریہ ٹاون والے اس ملک ریاض کی بات کر رہا ہوں جسے برطانیہ کی عدالت نے دس سال کے لیئے ویزا دینے سے انکار کر دیا ہے مگر پوری دنیا کی اتنی بڑی خبر ہمیں اس میڈیا پر نظر نہیں آئی،یہی وجہ ہے کہ لوگ تمہیں لفافی کہتے ہیں،لگتا ہے کہ ملک ریاض جس طرح فائلوں کو پہیہ لگاتا ہے اسی طرح تمارے چینلز اور اخبارات کو بھی پہیہ لگتا ہے،برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے شک کی بنیاد پر تفتیش کی اور تمارا لگ بھگ چالیس ارب روپیہ نکلوایا،تمہیں نہیں پتا تو بی بی سی کی رپورٹ دیکھو،واحد تماری ڈان اخبار ہے جس نے لیڈ سٹوری شائع کی ہے باقی سب کھاؤ پوت ہیں،کس کس کی زمین پر قبضہ ہوا؟ کون کہاں قتل ہوا؟آج تک کسی نے بحریہ ٹاون کے خلاف ایک خبر تک لگائی،سندھ کی زمینوں کو مال مفت دل بے رحم کی طرح ہڑپ کیا گیا،جس طرح جج جرنیل نوکری سے فارغ ہونے کے بعد بحریہ ٹاون میں نوکری کرتے ہیں اسی طرح زرداری اور آل شریف بھی اس بہتی گنگا میں نہاتے نظر آئے ہیں مگر تم صحافیوں کی انکھوں پر ہوس کی پٹی بندی ہوئی ہے۔کرورنا فنڈز کے 1200سو ارب روپے کا اتا پتا نہیں ،بڑا تیر مارا ہے تیرے آڈیٹرز نے جو چالیس ارب کا کھوج لگا،زرا پتہ کرواو کہ آئی ایم ایف والے ایک ارب 38کروڑ ڈالرز کہاں گئے؟ورلڈ بینک،ایشائی بینک اور یورپی یونین سے ملنے والے 453ملین ڈالرز اور 150ملین یورو کہاں ہیں؟۔آڈٹ رپورٹ میں تو بتایا گیا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام 25 ارب اور این ڈی ایم اے میں 4 ارب 80 کروڑ روپے کی بے ضابطگی ہوئی۔ وزیر اعظم نے 1200 ارب روپے کے تاریخی ریلیف پیکج کا اعلان کیا تھا، اس میں سے 500 ارب روپے مزدوروں اور غریبوں کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے لیے مختص تھے مگر عوام کو کیا ملا صرف 116 ارب روپے جاری ہوئے، ان میں سے بھی 35 ارب روپے سے زائد خلا ف ضابطہ اداء ہوئے۔ ایک ارب 80 کروڑ روپے ان میں تقسیم ہوئے جو مستحق ہی نہیں تھے۔دیہاڑی دار ملازمین کو200 ارب روپے میں دینے تھے صرف16 ارب جاری ہوئے، پناہ گاہوں اور لنگرخانوں میں 150 ارب میں سے145 ارب تقسیم ہوئے، یوٹیلٹی اسٹورز کو 50 ارب میں سے صرف 10 ارب روپے ملے،بجلی اورگیس پر 100 ارب کی سبسڈی میں سے صرف 15 ارب روپے دیے گئے۔ 250 بستروں کے آئیسولیشن اسپتال کے لیے ملنے والی رقم خرچ نہیں کی گئی، ایک کروڑ 60 لاکھ روپے کی ادائیگیاں تو ٹیکس فائلرز کو بھی کردی گئیں۔میڈیکل سے متعلق سامان خریدنے کے لیے50 ارب روپے میں سے 8 ارب 58 کروڑ روپے جاری کیے گئے، ان میں سے 8 ارب ایک کروڑ روپے دفاعی سروسز کو جاری کییگئے، صحت کے شعبے میں کام کرنے والوں کو ایک ارب 33کروڑ روپے کا سامان فراہم ہی نہیں کیا گیا،اور تم کہتے ہو کہ آڈیٹرز نے کونسا تیر مارا ہے،وزیر اعظم نے اعلان کیا تو اس پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیے ناں،
مریم نواز کی آڈیو ٹیپس تمیں مزاق لگتی ہیں،زرا دیکھو تو سہی جیو و جنگ گروپ نے ان پانچ سالوں میں کتنا پیسہ سمیٹا؟صرف ایک میڈیا گروپ نے تین ارب گیارہ کروڑ روپیہ کھایا اور ڈکار بھی نہیں مارا بلکہ تیرے جیسے سینکڑوں میڈیا ورکرز اور صحافیوں کو بیروزگار ہونا پڑا جن میں تیرا وہ دوست بھی شامل ہے جو اسی میز پر تیرے ساتھ بیٹھا کرتا تھا،دنیا میڈیا گروپ نے بھی سوا ارب کے لگ بھگ حاصل کر لیا پھر ندیم ملک جیسے صحافی کا لب و لہجہ کیسے برداشت ہوتا،تم لوگ ہاتھی کے دانت کی طرح ہو دکھانے کے الگ کھانے کے الگ۔میں تم سے گھنٹوں دلیل کے ساتھ بات کر سکتا ہوں مگر بے سود بس حبیب جالب کا یہ کلام چھوڑے جا رہاہوں
قوم کی بہتری کا چھوڑ خیال۔۔۔فکر تعمیر ملک دل سے نکال
تیرا پرچم ہے تیرا دست سوال۔۔۔بے ضمیری کا اور کیا ہو مآل
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
تنگ کر دے غریب پر یہ زمیں۔۔۔خم ہی رکھ آستان زر پہ جبیں
عیب کا دور ہے ہنر کا نہیں۔۔۔آج حسن کمال کو ہے زوال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
کیوں یہاں صبح نو کی بات چلے۔۔۔کیوں ستم کی سیاہ رات ڈھلے
سب برابر ہیں آسماں کے تلے۔۔۔۔سب کو رجعت پسند کہہ کر ٹال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
نام سے پیشتر لگا کے امیر۔۔۔۔ہر مسلمان کو بنا کے فقیر
قصر و ایواں میں ہو قیام پذیر۔۔۔اور خطبوں میں دے عمرؔ کی مثال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
آمریت کی ہم نوائی میں۔۔۔۔تیرا ہمسر نہیں خدائی میں
بادشاہوں کی رہنمائی میں۔۔۔۔روز اسلام کا جلوس نکال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
لاکھ ہونٹوں پہ دم ہمارا ہو۔۔۔۔اور دل صبح کا ستارا ہو
سامنے موت کا نظارا ہو۔۔۔۔لکھ یہی ٹھیک ہے مریض کا حال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
حبیب جالب
حاجی صاحب شان بے نیازی سے جا رہے تھے اور میں ہوس،دولت،مفاد،عہدہ اور شان کی زنجیروں میں جکڑی صحافت کو دیکھ رہا تھا،اب حاجی صاحب کو کیسے سمھایا جائے عالجاہ میڈیا سیٹھ اور میڈیا ورکرز میں زمین آسمان کا فرق ہے،ملک ریاض یا بحریہ ٹاون سے کوئی صحافی ڈرتا نہیں مگر خبر لگانے کا اختیار اب ایڈیٹر سے سیٹھ کے پاس منتقل ہو گیا ہے،مریم نواز نے ریوڑیاں بانٹیں صرف اپنوں میں مگر اس وقت ہمارے اخبار پر تو بندش لگائی،ہمارے کپتان کی منجھی پیڑی تو انکے اپنے ٹھوک رہے ہیں،مگر ہم نے تو ”مثبت صحافت“ کرنی ہے۔۔۔