سال 2020 میں جب کرورنا نے پوری دنیا میں اپنے خونی پنجے گاڑھ رکھے تھے تو متحدہ عرب امارات کے سب سے بڑے اخبار ”خلیج ٹائمز ” کا ایک آرٹیکل میری نظر سے گزرا،جسے پہلے تو میں نے صرف نظر کردیا تاہم دوسری بار کسی دوست نے ذاتی طور پر بھجوایا تو وہ ہمارے علاقے دھرتی لورہ کے ایک سپوت عدیل قیصر عباسی سے متعلق تھا. دوبئی میں عدیل قیصر عباسی کا انٹرنیشنل فوڈ چین کا اپنا کاروبار ہے جس نے اس وباء کے دوران فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کے لیے فری خدمات سر انجام دیں جسے خلیج ٹائمز نے اپنے آرٹیکل کا حصہ بنایا۔چونکہ میں ذاتی طور پر انٹرنیشنل میڈیا سے منسلک رہا ہوں وہاں فرمائشی آرٹیکل یا ”اڈی چک” خبر کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔اس ارٹیکل کو وول نیوز نے اپنی رپورٹ کا حصہ بنایا اور پھر دل میں اس شخص سے ملاقات کی خواہش جاگی اور ہم جا پہنچے ان کے آبائی گھر سیری سترال۔عدیل قیصر عباسی سے پہلی ملاقات نے ہی ہمیں انکا گرویدہ کر دیا، دھیما،میٹھی گفتگو اس نوجوان کا خاصا تھی اور سچی بات یہ ہے کہ ہم صحافی لوگ بہت کم ہی کسی سے مرعوب ہوتے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے اپ کو بڑی توپ قسم کی چیز سمجھتے ہیں چونکہ بنیادی طور پر ہم پرسنلیٹی میکر ہوتے ہیں اس لیے کسی شخصیت سے متاثر ہونا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا۔اب تک کی صحافت میں مختلف وزراء اعظم،سیاسی قائدین،ججز،جرنیلوں سے یاد اللہ رہی مگر کوئی بھی ایسی شخصیت نہیں ملی جو ہمارے ذہنوں میں گہرے نقوش چھوڑ جاتی۔الغرض سیری سترال کی اس ملاقات میں ہم نے ایک پروگرام ریکارڈ کیا اور واپس آ گئے۔تقریبا چھ ماہ بعد ہماری دوسری ملاقات تب ہوئی جب لورہ میں عدیل قیصر ایک برانڈ کی لانچنگ کا ارادہ کر رہے تھے۔۔
عدیل قیصر عباسی کی پر اعتماد گفتگو سے مجھے یقین تھا کہ یہ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہونگے جبکہ جو کچھ وہ کرنے جا رہے تھے ہمیں اس میں انکی ناکامی کا عنصر حاوی نظر آ رہا تھا تاہم جس طرح کسی بزرگ کی کہاوت ہے ناں کہ ” جھک کے پہاڑ کو سر کر سکتے ہو مگر اکڑ کے ایک پگڈنڈی نہیں چڑھ سکتے ” ٹھیک اسی طرح عاجزی, انکساری عدیل قیصر عباسی کی کامیابی کی ضامن نکلی۔مدینہ کیش اینڈ کیری لورہ نے پوری تحصیل کو چار چاند لگا دہیے اور پھر جس طرح اسکی لانچنگ کی تقریب ہوئی اہلیان لورہ کی جانب سے خوشدلی کیساتھ انہیں ویلکم کیا وہ سب کے سامنے ہے۔
کرورنائی وباء کے درمیان ہی مجھے ایک بے سہارا فیملی کے لیے چیرٹی درکار تھی تو میں نے عدیل قیصر عباسی کے والد قیصر عباسی صاحب سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ان معاملات کو عدیل ہینڈل کرتا ہے اب عدیل قیصر عباسی سے بات کرنا میرے لیے خاصا مشکل تھا اس کی وجہ ایج فیکٹر تھا چونکہ قیصر عباسی صاحب میرے ہم عمر تھے ان سے بات میں مجھے ججھک بالکل نہیں تھی. پھر میں نے ایک مختصر واٹس ایپ میسج کیا جس کا مجھے فوری رپلائی ملا۔عدیل کا جواب تھا ” بھائی جان حکم کریں اب یہ مسئلہ میرا ہے اور اپ نے مجھ سے وعدہ کرنا ہے کہ جب بھی کوئی ایسا معاملہ اپ کے علم میں آنے آپ نے مجھے بتانا ہے ”.میرے سر سے وہ بوجھ اتر گیا اور جب وقت آیا تو عدیل قیصر نے توقعات
سے بڑھ کے کیا وہ چیرٹی اتنی تھی کہ شاید کسی مزدور کے چھ ماہ کی تنخواہ بھی اتنی نہ ہو. اس چیرٹی میں شرط بڑی عجیب سی تھی کہ لینے والے کو پتہ نہ چلے کہ یہ جہیز دینے والا کون ہے۔آج اس کالم میں یہ راز افشاء کرنے کی جسارت کر رہا ہوں اسکے بعد بھی متعدد ایسے مواقع آئے ہیں کہ مخلوق کی مدد میں عدیل قیصر کا نام کانوں میں پڑتا ہی رہا اور شاید یہی ان کی کامیابیوں و کامرانیوں کا سبب بھی ہے۔ورنہ بدقستمی سے ہم آٹے کا ایک تھیلہ بھی چیرٹی کرتے ہیں تو ساتھ تصویر بنوانا ہماری شرط ہوتی ہے تاہم وول ویلفیئر کی یہ پالیسی رہی ہے کہ نہ لینے والے کو پتہ ہوتا کہ کون دے رہا نہ دینے والے کو علم ہے۔آج بھی کچھ گھرانوں کا ذمہ کچھ مخلص ساتھیوں نے اٹھا رکھا ہے جس میں ایک نام بٹنگی والے بابر عباسی بھائی کا بھی ہے. اللہ کریم ان احباب کے رزق میں برکت فرمائے آمین
عدیل قیصر عباسی نے دوسرا بیڑا اپنے علاقے کے نوجوانوں کو صحت مندانہ سرگرمیوں کی جانب راغب کرنے کا اٹھایا تو گزشتہ سال لورہ کالج گراونڈ میں سنگم سپورٹس کلب لورہ کے اشتراک سے ایک ٹورنامنٹ کا انعقاد کرایا جسکی کامیابی کو دیکھتے ہوئے مارخور چمپیئن ٹرافی میں پورے صوبے کا اعزاز تحصیل لورہ کی جھولی میں ڈالتے ہوئے ایم ای سی کے پی کے ٹائیگرز کے نام سے فرنچائز خریدی اوپن پلئیرز کیساتھ ساتھ ہمارے مقامی کھلاڑیوں نے قومی سطح کے مقابلوں میں شرکت کی اور بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا یہ الگ بات ہے کہ فاتح ٹرافی حاصل نہ کر سکے تاہم وکٹری سٹینڈ پر ہماری نمایاں پوزیشن رہی۔ایم سی سی کرکٹ ٹیم ایک برانڈ کی شکل اختیار کر گئی اور مختلف مقابلوں میں حصہ لیا اور ٹرافیاں حاصل کیں۔کھیل اور کھلاڑی ایک مہنگا پروفیشن ہے جہاں ٹینلنٹ ہے وہاں کھلاڑیوں کے پاس مالی وسائل کی شدید کمی ہے اور اس کمی کو دیکھتے ہوئے عدیل قیصر نے اپنا سرمایہ وہاں جھونک دیا جہاں سے منافع ملنے کا امکان ہی نہیں ہے۔
حالیہ دنوں میں تحصیل لورہ بلکہ ہزارہ کی تاریخ کا ایک بڑا ٹورنامنٹ کالج گروانڈ میں کھیلا گیا گو کہ انہی تاریخوں میں گھر کی شادی تھی اور بارات نے سندھ جانا تھا شدید خواہش کے باوجود میں ذاتی طور پر کالج گراونڈ لورہ میں موجود نہ رہ سکا اور یہ الگ بات ہے کی منتظمین کو بھی ہماری کمی محسوس نہ ہوئی اور نہ ہی مقامی براڈ کاسٹرز کو دعوت دینے کی ضرورت محسوس کی گئی لیکن ہمارے گھر کا ایونٹ تھا ہم نے اس کے ہر لمحے کومس کیا۔ایم سی سی اور سنگم سپورٹس کلب لورہ کے اشتراک سے ہونے والے ہزارہ سپر لیگ کے اس میگا ایونٹ نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے جس کا سہرا بلاشبہ عدیل قیصر کی قائدانہ صلاحیتوں کو جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ عدیل کسی بھی کامیابی کا کریڈٹ لینے سے ہچکچاتے رہے ہیں اور اپنے کاموں کا کریڈٹ بھی دوسروں کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں شاید اسکی وجہ یہی ہے کہ عدیل قیصر کو دینے کی عادت ہے لینے کی نہیں۔اللہ کریم انہیں ہمیشہ دینے والوں کی صف میں رکھے.. آمین
عدیل قیصر عباسی ہماری دھرتی کا سپوت ہیں جوبڑے خواب دیکھتے ہیں اور پھر ان خوابوں کو تعبیر میں بدلنے کے لیے اپنے کام میں جت جاتے ہیں۔ہزارہ سپر لیگ کی اختتامی تقریب بھی شاندار تھی، ممبر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی, افتخار احمد عباسی, ڈاکٹر جنید جہانگیر عباسی, راجہ عبدالصبور خان, استاد محترم سر ماسٹر منظور خان سمیت سیاسی, سماجی عمائدین نے خطاب بھی کیا اور بالخصوص تحصیل لورہ کے کراوڈ کی تعریف نہ کرنا سراسر زیادتی ہو گئی جنہوں نے کرکٹ کو کرکٹ کی طرح لیتے ہوئے کھلاڑیوں کی بھرہور حوصلہ افزائی کی۔انہی سطروں میں عدیل قیصر عباسی اور سنگم سپورٹس کلب کے منتظمین سے ایک گزارش ضرور ہے کہ اوپن پلئیر ضرور لائیں تاہم موقع مقامی ٹیلنٹ کو پہلے موقع دیں۔ہمارا ٹینلنٹ ابھرے گا تو تحصیل لورہ کا نام روشن ہوگا, ٹورنامنٹ کی فاتح راہی سپر سٹار کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے کہ ہزارہ سپر لیگ کی ٹرافی تحصیل لورہ کو ملی۔عدیل قیصر کے متعلق اتنا ہی کافی ہے کہ۔۔ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔۔۔۔