حوا کی بیٹی آج بھی مظلوم کیوں؟ :مکتوب دوبئی۔۔پرویز اختر

گذشتہ دنوں 22 جون کو تھانہ لورہ کی حدود ٹائیں نڑیلہ گلی یونین کونسل گورینی سے تعلق رکھنے والی ایک شادی شدہ عورت کو مبینہ طور پر قتل کر دیا گیا اور اسی دن رات کو مقتولہ کی تدفین بھی کر دی گئی تھی۔ لیکن چند دن بعد مقتولہ کی تشدد شدہ لاش کی ویڈیو وائرل ہونے پر مقتولہ کے والدین کی جانب سے تھانہ لورہ میں قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کی درخواست دی گئی۔ گزشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ ایبٹ آباد نے قبر کشائی کے احکامات جاری کئے جس کے مطابق آج مورخہ 8 جولائی کو قبر کشائی کے بعد لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق میڈیکل بورڈ کا کہنا ہے کہ مقتولہ کی گردن اور چہرہ پر چوٹوں کے نشانات ملے ہیں۔ اس واقعہ پر اہلیان تحصیل لورہ سوگوار ہیں اور ہر کوئی اشکبار ہے۔ اہلیان علاقہ اور مقتولہ کے والدین نے پولیس اور حکومت خیبرپختونخواہ سے اس واقع کی مکمل تحقیقات کر کے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس عورت کے بہیمانہ قتل کے واقعے نے ہر ذی شعور ذہن اور حساس دل کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ۔گو کہ عورتوں کے ساتھ ایسے ظلم کے واقعات نئے نہیں ہیں عورتیں عشروں سے استحصال کا شکار ہوتی چلی آئی ہیں ۔لیکن قابل فکر بات یہ ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں عورتوں کے ساتھ ظلم و ستم کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم ایک مسلمان معاشرے کے افراد ہیں لیکن آخر وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے عورتوں کے خلاف جرائم ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
زمانہ جاہلیت میں عورت کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔اسکی تذلیل کے لیے اسکا عورت ہونا ہی کافی سمجھا جاتا تھا لیکن اسلام کی آمد کے بعد عورت کی نہ صرف حالت بدلی بلکہ پہلی بار اس کو اس کااصل مقام نصیب ہوا۔ صرف اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے عورت کو عزت و احترام اور حقوق سے نوازا ۔معاشرے میں عورت کے اہم کردار کو اجاگر کیا گیااور دنیا کو یہ باور کروایا گیا کہ عورت کے بنا گھر اور معاشرے کامیاب نہیں ہوا کرتے اور عزت دار وہی ہے جو عورت کی عزت کرے کیونکہ عورت بھی اتنی ہی احترام کے لائق ہے جتنا کہ مرد۔اسلام نے عورت کو اتنی عزت دی کہ جنت کو ماں کے قدموں کے نیچے رکھ دیا ۔بیٹی کی پیدائش کو زمانہ جاہلیت میں منحوس سمجھا جاتا تھا۔ اﷲ کریم کو یہ عمل اتنا ناگوار گزرا کہ ا ﷲ تعالیٰ نے قرآن میں اس عمل کی   انتہائی سخت الفاظ میں مذمت فرمائی ۔ موجودہ حالات کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ عورت کو ایک بار پھر زمانہ جاہلیت کی طرف دھکیلنے کی کوشش جاری ہے ۔صرف ہمارے معاشرے ہی کی بات نہیں بلکہ پوری دنیا میں کم و بیش یہی حالات ہیں۔ ہم اُمتی ہیں اس عظیم ہستی رحمةللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جنھوں نے بیٹی کی اتنی تکریم کی کہ بیٹی کی آمد پر اپنی چادر مبارکہ بچھا دیتے تھے اور ہمارے ہاں عورت سے اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ روٹی گول نہ پکا کر دینے کی معمولی وجہ پربھی بیٹی کو تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیاجاتا ہے۔

آج کل ہمارے ملک میں کوئی ایسا دن نہیں ہوتا جس دن یہ خبر نہ سننے میں آئے کہ آج کسی نے کسی کی جان نہیں لی۔ آئے روز حوا کی بیٹی درندوں کے ہاتھوں تشدد، استحصال اور ظلم و ستم کا شکار ہو کر مار دی جاتی ہے۔ روح تک کانپ اٹھتی ہے۔ انسان جو خود کو پڑھا لکھا اور تہذیب یافتہ سمجھتا ہے وہ اب بھی فرسودہ روایات میں جکڑا ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تشدد کا رجحان تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے اور غیرت کے نام پر بھی قتل معمول بن چکا ہے۔ معلوم نہیں یہ کیسی غیرت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ اور جسے حرمت اللہ نے عطا کی ہو تو اسے کیوں کر قتل کردیا جاتا ہے؟ کیسی درندگی ہے اور کیسی بے حسی کا عالم ہے۔ کہیں کوئی کسی کو رشتہ نہ ملنے پر پستول کی گولی کی نذر کردیتا ہے کہ میری نہیں تو کسی کی نہیں اور کہیں ذاتی عناد، شک و شبہ، ناجائز تعلقات پر بغیر تصدیق کیے غیرت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔ روز ایسے واقعات کا رونما ہونا معاشرے سے برداشت کے ختم ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ ایسے جرائم پیشہ لوگ کھلے عام گھوم رہے ہوتے ہیں اور ان کو بچانے کے لیے پولیس بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے جس سے مجرم فائدہ اٹھا لیتا ہے جب کہ مظلوم کو انصاف نہیں مل پاتا۔

آخری بات! آخر حوا کی بیٹی ہی اس معاشرے میں ہر بار قربانی کا بکرا کیوں بنتی ہے؟ چودہ سو سال پہلے بھی بیٹی ہی کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، آج بھی وہی بدنصیب بیٹی ہی ماری جاتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں