کیا اسلام آباد کی پہلی مسجد804ءمیں بنائی گئی؟:تحقیق و تحریر :محمد امجد چوہدری

تلاش ماضی

میرے اس تحقیقی مضمون کا عنوان پڑھ کر آپ کو حیرت کا جھٹکا ضرور لگا ہو گا ۔ اور سوچتے ہوں کیسی بے پرکی اڑائ ہے اس ناقص العقل شخص نے ۔ اسلام آباد کی تعمیر کا آغاز تو 1961ء میں ہوا ۔ کہاں 804ء ء اور کہاں 1961ء سالوں کا ہی نہیں گیارہ صدیوں کا بٌعد ہے تو لیجئے جناب اس کا مکمل باوثوق ثبوت پیش کیے دیتا ہوں ۔

اسلام آباد کے قدیمی شہر کوری شہر میں 804 بمطابق 198 ہجری میں بنائی گئی مسجد


آئیے چلتے ہیں اسلام آباد کے قصبے چک شہزاد کی جانب ۔ چک شہزاد کے بیچ سے زرعی یونیورسٹی کے بالمقابل ایک چھوٹی سی سڑک الٹے ہاتھ مڑتی ہے شروع میں اس پر اینٹوں کے بھٹوں کے علاوہ کوئ قابل ذکر چیز نہیں ۔ سڑک گھومتی گھماتی دریائے کورنگ کے اوپر سے گزر کر ایک ٹیلے پر چڑھ جاتی ہے۔ اوپر چڑھتے ہی” کری “نام کا گاوں ایک سرسبز وادی میں بسا نظر آتا ہے۔ یہ گاوں کسی دور میں معروف قصبہ رہا ہو گا ۔ پتھروں کے بنے ہوئے مضبوط گھر ماضی کی داستانیں سینوں میں لیے اب بھی کھڑے ہیں ۔ عین وادی کے درمیان انسانی ہاتھوں سے بنا پانی کا تالاب بھی ہوتا تھا ۔ اسی گاوں کے آس پاس ٹیلوں میں بدھ مت کے سٹوپے تاریخ سے رشتہ جوڑے انتظار کی کیفیت میں کھڑے ہیں ۔ قصبے کے ایک کونے میں ہماری منزلِ مقصود چھوٹی سی پرانی مسجد کھڑی ہے ۔ دیکھنے میں معمولی سی عام سی مسجد جیسی اکثر گاوں کی ہوتی ہیں ۔ مسجد کے ساتھ ایک کنواں اور ایک بڑ کا درخت بھی نظر آتا ہے۔ مسجد میں مینار بھی ہیں اور گنبد بھی ۔ آئیے مسجد کے اندر چلتے ہیں پتھر کی سیڑھیاں اور پتھر کی دہلیز کراس کرنے کے بعد لوہے کا دروازہ سامنے آ گیا ۔ جو یقیناً کسی زمانے میں لکڑی کا ہو گا ۔ دروازے کے اوپر محراب میں مسجد میں داخل ہونے کی دعا کے الفاظ فیروزی روشنائ میں لکھے ہوئے ہیں ۔ جو سفیدی نے مدھم کر دئیے ہیں صحن میں پانچ چھ قدم اونچا چبوترہ ہے ۔ جس پر چڑھنے کے لیے پانچ محرابی دروازے ہیں جن میں سے ایک پر “چراغ ومسجد محراب و منبر “کے الفاظ سفیدی کے باوجود پڑھے جا سکتے ہیں دو محرابوں پر “ابوبکر و عمر و عثمان و حیدر “”رضوان اللہ علیہ اجمعین“ کے مدھم مدھم الفاظ ہیں باقی محرابوں پر لکھے الفاظ پڑھے نہیں جاتے ۔ چبوترے کے آخر میں سادہ سا برآمدہ اور اس کے بعد نماز کا کمرہ ہے کمرے کے درمیان قبلہ کی محراب ہے جو کسی زمانے میں گہرے فیروزی رنگ کی تھی ۔ اور اس پر سیاہ روشنائ سے مسجد کی تاریخ تعمیر اور تعمیر کرنے والوں کے نام ہیں ۔ محراب پر لکھی عبارت کے مطابق یہ مسجد دو ایرانی بھائیوں عبدالطیف اور عبدالحفیظ نے 814ء میں تعمیر کی جو تجارت کے سلسلے میں اس علاقے میں آئے تھے یا گزر رہے تھے ۔ پھر ایک بھائ تبلیغ کی غرض سے اسی بستی میں رک گیا ۔

موجودہ ایوان صدر کے بالکل سامنے کا قدیمی گاوں


رنجیت سنگھ کے زمانے میں یہ علاقہ سکھوں کے زیر اثر آ گیا ۔ مسجد ان کے قبضے میں آ گئ اور انہوں نے نعوذ بااللہ اس کو اصطبل کے طور پر استعمال کیا ۔ سکھوں نے درمیانی محراب کے آگے جس پر لکھائ کی گئ تھی ایک دیوار چن دی ۔ باقی دیواروں میں گھوڑے باندھنے کے لیے گڑے ہوئے لوہے کے سنگل آج بھی ان کے مظالم کی یاد دلاتے ہیں ۔۔ انگریز دور میں الہی بخش نام کے ایک آدمی نے مسجد سے گوبر اور لید صاف کی اور درمیان میں لگائ گئ دیوار کی اینٹیں ہٹائیں اور اپنی بساط کے مطابق مرمت کی اور نماز پڑھانی شروع کر دی ۔ ان کے بعد مسجد کی ذمہ داری ان کے بیٹے اللہ نور نے سنبھال لی ۔ پھر اس کے بیٹے عبدالغنی نے ۔ ان کی وفات کے بعد غلام قادر اور پھر ان کے بعد امامت ان کے بیٹے امام اعظم کے حصے میں آئ ڈیڑھ سو سال تک اس خاندان نے مسجد کی دیکھ بھال اور امامت کی ہے۔ امام اعظم نے طویل عمر پائ 82 سال کی عمر میں بھی وہ چاک و چوبند نظر آتے ہیں۔ صاف چمکتا ہوا پرنور چہرہ روشن آنکھیں اور سیدھی کمر ہے قصبے کے پوسٹ ماسٹر ہیں .پرانے کپڑے بیچ کر اپنا نظم و نسق چلاتے ہیں ۔ جب انہیں پتہ چلا کہ سی ڈی اے مسجد کی سفیدی کرانے والا ہے تو انہوں نے فراست سے کام لیتے ہوئے ۔ محراب پر لکھی ہوئ فارسی عبارت کو حرف بہ حرف نقل کیا اور کیمرےسے تصاویر بنوا کر پلاسٹک فریم کرا کے مسجد میں لٹکا دیا ۔ سی ڈی اے کے عملے نے لاپروائ کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ جغرافیہ سب کو برابر کر دیا ۔ لیکن اللہ کی مصلحت سفیدی کے اندر سے فیروزی اور سیاہ لکھائ کے حروف دکھائ دیتے ہیں ۔وضو کی جگہ میں پتھر سے بنے چھبے میں پانی کی کاٹ گزرے اوقات کی داستان سناتی ہے ۔
گاوں کی یہ مسجد اپنے ماضی کا قصہ خود سناتی ہے ۔ مسجد پر لکھی تحریر کے مطابق یہ اسلام آباد بلکہ خطہ پوٹھوہار کی قدیم ترین مسجد ہو سکتی ہے ۔ 814ء میں پنجاب اور سرحد کا علاقہ ہندو راجہ ”کالو کیاس “ کے زیر اثر تھا ۔ محمود غزنوی کے حملوں کا آغاز اس کے پونے دو سو سال بعد ہوا ہو گا ۔ محمود غزنوی نے جب پوٹھوہار کے اس خطے پر حملہ کیا تو یہ تمام علاقہ جنگلات سے پٹا پڑا تھا البتہ چند چھوٹے چھوٹے قصبے آباد تھے ان قصبوں میں راول نام کا قصبہ نمایاں تھا جہاں راول نامی قبیلہ آباد تھا۔ جس کا سردار ستوگن اچھے خاصے اقتدار کا مالک تھا بعد میں اسی راول قبیلے کے نام سے راولپنڈی آباد ہوا ۔ راول ڈیم کا نام بھی اسی قبیلے کے نام رکھا گیا ۔جبکہ اس سے قبل تاریخ کی کتابوں میں راولپنڈی کا نام ”سیاہ پانی “ملتا ہے ۔ محمود غزنوی نے بھی 1008ء میں درہ مارگلہ کی حدود ایک مسجد اور درس گاہ تعمیر کی ۔ شیخ کمال الدین مارگلی کو امام مقرر کیا ۔ ان کی اولاد میں مولانا حسام الدین مارگلی ایک بزرگ اور برگذیدہ ہستی گزری ہیں ۔ اسلام آباد کی دھرتی پر ان اولین مساجد اور اولیاء کی خدمات کا تذکرہ
ان شاء اللہ پھر کسی اورتحریر میں کیا جائے گا ۔
یہاں 814 ء کا ذکر ہو رہا تھا اس وقت محمد بن قاسم کی آمد کو تقریباً سو سال گزر چکے تھے ملتان تک عربوں کے قبضے میں تھا اس کے بعد شمال میں اسلام کا اثر پہنچا ۔ خالص ہندو علاقے میں مسجد کی تعمیر کرنا اور تبلیغ کی کوشش کرنا بڑا حیرت انگیز ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس دھرتی پر اسلام کی آمد 814ء کے لگ بھگ ہوئ ۔ اسی عرصہ میں یہاں اسلام آباد ہوا اور اسلام کو آباد کرنے میں ان دو بھائیوں عبدالطیف اور عبدالحفیظ کا واضح ثبوت ”کری “گاوں کی یہ مسجد ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ کو اگر اس مقام پر کوئ بدھ مت کا سٹوپا مجسمہ یا مورتی نظر آتی تو وہ اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھاتے ۔ اس پر مزید تحقیق کرتے اس پر آرٹیکل لکھے جاتے ۔ اس کی تزہین و آرائش کی جاتی ۔ لیکن ہمارے ثقافتی اقدار کے آئینہ دار اداروں کی بے حسی دیکھیے کہ انہوں نے اس اصل ورثے کی حفاظت لیے کوئ اہم پیش رفت نہیں کی ۔ جسکی وجہ سے ہمارا یہ تاریخی مقام ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے ۔

شاہ اللہ دتہ گاوں کی ہزاروں سال پرانی غاریں


سی ڈی اے کی بے حسی اور لاپرواہی پر ندامت ہوتی ہے۔ جس نے سیدپور کے مندر کی حفاظت کے لیے اس گاوں کو ماڈل ویلیج کا درجہ دیا ۔ جبکہ مندر سے بھی قدیم ترین مسجد ہمارا اصل ورثہ اور” کری ” گاوں کو مسلسل نظرانداز کیا ۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اسلام آباد کی بنیاد 804ء میں “کری ” گاوں میں رکھی گئ ۔ اسی مسجد کی بنیاد کا پہلا پتھر اسلام آباد کی دھرتی پر اسلام کو آباد کرنے کا سنگِ بنیاد ہے اور پھر اولیاء علماء اور صلحاء نے اس دھرتی کو اسلام کی روشنی سے منور کیا ۔ اسلام آباد جیسا جدید ترین روشنیوں اور باغات کا شہر دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آیا ۔ کری گاوں کی قدیم مسجد سے لے کر اسلام آباد میں سینکڑوں اللہ کے گھر آباد ہونے تک کا سفر اور پھر سب سے بڑھ کر ترکی کے ماہرِ تعمیرات ”دیدات ضلو“ کا عظیم ترین فنی شاہکار، شاہ فیصل مرحوم کا تحفہ ، اسلام آباد کے ماتھے کا جھومر، فیصل مسجد کا وجود سامنے آیا۔ مارگلہ ہلز کے سلسلے کا قلعہ نما حفاظتی حصار لیے دنیا کا ساتواں خوبصورت ترین شہر آباد ہوا ۔ یہ شہر جس طرح مارگلہ کے پہاڑوں کے دامن میں آباد ہے بالکل اسی طرح دمشق شہر جبلِ قاسیون کے دامن میں آباد ہے ۔

اسلام آباد کے قدیمی گاوں


مندرجہ بالا تحریر تقریباً دس سال پرانی ہے ۔ 2009ء میں ”کری گاوں“ کا وزٹ کیا اور ایک معلوماتی اشاریہ مرتب کیا گیا تھا ۔ لیکن یہ تحریر لایبریری کی کتابوں میں گم ہو گئ تھی آج تلاش کے بعد دوبارہ ہاتھ لگی تو سوچا کہ آپ کو بھی اس تاریخی ورثہ سے روشناس کرایا جائے ۔جو اسلام آباد کی دھرتی پر اسلام کے آباد ہونے کا اولین ثبوت ہے ۔ امید کرتا ہوں کہ اس تحریر کی روشنی میں سی ۔ ڈی ۔ اے انتظامیہ اس اہم ترین تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے اہم قدم اٹھائے گی ۔ اور مورخین ، تاریخ کے شائقین” کری ویلیج “کا وزٹ کر کے اس کی مکمل جامع تحقیقی رپورٹ مرتب کریں گے ۔اور اس کا آئینہ آنے والی نسل کے سامنے رکھیں گے ۔ جس میں انہیں عروس البلاد اسلام آباد کی دھرتی پر اسلام آباد ہوتا دکھائ دے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں