مالمولہ کا تاریخی پس منظر :تحقیق و تحریر،محمد شامیر شاہ

مالمولہ سے مراد مولا کا مال ۔ یہ گاؤں ڈسٹرکٹ ایبٹ آباد ، تحصیل لورہ اور یونین کونسل سیر غربی میں واقع ہے ۔اس گاؤں میں 110 گھر آباد ہیں اور آبادی 500 کے لگ بھگ ہے ۔ اکثریت یہاں ان پیران کی پائی جاتی ہے جن کا تعلق قبیلہ اسدی ہاشمی سے ہے اور تاریخ کی کتابوں میں ان کو پیرانِ پلاسی کا بھی لقب دیا گیا ، یہ سب پیر شرف شاہ کی اولاد ہیں جو پیر عبداللہ شاہ ( رح ) کے بیٹے تھے جن کا مزار شریف گاؤں پلاسی میں موجود ہے۔ مالمولہ گاؤں پیر شرف شاہ کو احدِ سکھ میں جاگیر میں ملا اور پھر بعد میں شرف شاہ کی اولاد اس گاؤں میں پھلی پھولی اور اب ایک درخت کی طرح ان کی اولاد کی بھی بہت سی شاخیں ہیں جو اس گاؤں میں آباد ہیں اور ہر خاندان مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے مثلاً ڈیڈھی والے ، چوکی والے ، برج والے وغیرہ – اس کے پیر مہتاب شاہ اور پیر سید شاہ جو کہ پیر شرف شاہ کے بھائی تھے اُن کی اولاد میں سے بھی کچھ گھرانے اس گاؤں میں آباد ہیں لیکن اُن کے زیادہ وارث پلاسی ، خوشاب ، اور سرگودھا میں بھی آباد ہیں ۔ پہاڑی سلسلہ ہونے کہ باوجود یہ گاؤں ایک میدان پر مشتمل ہے ۔ اس گاؤں میں ان پیران کے علاوہ اور بھی چند قومیں آباد ہیں جن میں گجر ، عباسی ،اعوان ، مغل بھی ہیں ۔۔۔۔ مغل ، گجر ، اعوان اس گاؤں میں مزارہ کے طور پر آباد ہوئے اور اس گاؤں میں ان کی کوئی مالکیت نہ تھی ، پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد صدر ایوب خان کے دور میں جب زرعی اصلاحات ہوئیں تو ان قوموں کے چند لوگوں کو مالکیتی حصے مل گئے لیکن اکثریت گاؤں مالمولہ میں ان پیران کی ہے ۔ یہ ایک خوبصورت گاؤں ہے اور ایک وادی کا منظر پیش کرتا ہے اسے دو اطراف سے ندی (ہرو) نے گھیرا ہوا ہے اور دو طرف پہاڑی سلسلہ ہے ۔ تاریخ میں اگر جائیں تو اس گاؤں میں سکھ اور ہندو بھی آباد رہے ہیں جن کی آبادی کی نشانیاں آج بھی باقی ہیں اور کچھ ہندو خاندان تو 1947 قیام پاکستان تک اس گاؤں میں آباد رہے اور جب پاکستان بنا تو انہیں یہ گاؤں چھوڑنا پڑا اسی دوران جب 1947 میں ہزارہ میں سکھوں اور ہندوؤں پر حملے شروع ہوئے تو گاؤں مالمولہ میں آباد دو ہندو خاندانوں کو میرے دادا جاگیردار پیر انور شاہ نے باحفاظت نکالا اور علاقہ جبری تک انہیں تحفظ فراہم کیا اور پھر انہیں ایبٹ آباد جہاں مہاجرین کے کیمپ تھے وہاں روانہ کیا ۔ جب وہ ہندو خاندان ایبٹ آباد پہنچے تو انھوں نے میرے دادا کو ایک خط لکھا کہ فلاں دن ہم ٹیکسلا کی طرف روانہ ہوں گے اور آپ ٹیکسلا آ کہ ہم سے ایک آخری ملاقات کر لیں ۔ لیکن اُن کا وہ خط وقت پے نہ پہنچ سکا اور جب پہنچا تو وہ وہاں سے جا چکے تھے ۔ یہ ایک مختصر سا واقع تھا جو بیان کیا ۔

ہزارہ کے چیفز کا 1906 میں لیا گیا گروپ فوٹو جس میں مالمولہ سے فضل شاہ،ستار شاہ جبکہ لورہ کے سردار عطاء محمد خان موجود ہیں ساتھ نواب آف امب اسٹیٹ،سید آف کاغان اور دیگر جاگیردار موجود ہیں

گاؤں مالمولہ میں بسنے والی قدیمی قومیں :-
کچھ مزید ریسرچ تحقیق کے بعد یہ بھی پورے یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اس گاؤں میں دورے قدیم میں ہندوشاہی قوم بھی آباد رہی جن کا دور ایک ہرزار سال پہلے گزرا اور مزید یہ کہ بائیس سو سال پہلے بھی یہاں ایک قوم گزری ہے جن کا تعلق قدیم سلطنت کوشان سے ہے اور یہ دور کوشان کا دور تھا ۔

© قدیم قوم ہندو شاہی :

برہمن شاہی یا ہندو شاہی-
ً مقامی بادشاہوں کے جس سلسلے نے آخر تک عربوں یا مسلمانوں کی مزاحمت کی وہ برہمن شاہی یا ہندو شاہی یا رایان کابل کا خاندان تھا ۔ جنہیں مسلمان مورخین رتبیل ، زنبیل اور زنتبیل لکھا ہے ۔ یہ نام مختلف املا میں رتبال ، رسل ، رتسل ، زنبیل ، رن بیل وغیرہ 3ھ سے دو صدی تک عرب مورخین کابلشاہ اور سجستان کے بادشاہ کو لکھتے رہے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی خاص شخص کا نام نہیں تھا بلکہ خانوادہ کا مورثی لقب تھا ۔ ویلبون اور راوڑتی اس کو رتن (رتنہ پالہ یا رنہ پالہ) سمجھتے ہےں ۔ دوسرے لکھنے والوں نے کسی ایک قرات پر اعتماد نہیں کیا ہے ۔ ممکن ہے یہ نام راون زبل یا رای زبل ہوں کہ اس کے معنی رائے یا رانائے زابل کے ہوں گے ۔


البیرونی انہیں بلند کردار کے حکمران بتاتا ہے ۔ اس کے ہاں حسب ذیل نام ملتے ہیں ، سامند (سامنتہ دیو) ، کمالو (کمرہ ؟) ، بھیم (بھیمہ دیو) ، جے پال (جیہ پالہ) ، آنند پال (آنندہ پالہ) ، تروجن پال (ترلوچن پالہ) کے علاوہ چار حکمرانوں کے ناموں کا پتہ مشرقی افغانستان اور پنجاب سے دستیاب شدہ سکوں سے پتہ چلا ہے ۔ یعنی سہالہ پتی ، پدمہ ، خورودیکہ اور نکہ دیو ۔ راج ترنگی کا مولف اس خاندان کی تایخ پر کچھ روشنی ڈالتا ہے ۔ وہ بیان کرتا ہے کہ بھیم دیو کشمیر کی رانی ودّا کا دادا تھا ۔ یہ خاندان وردر اسلام سے 421ھ/1030ئ تک موجود رہا جب افغانستان کے مشرقی حصہ پر اسلامی لشکر کا قبضہ ہو گیا تو دارلحکومت گردیز اور کابل سے اوہنڈ (ویہنڈ) منتقل ہوگیا ۔
اسلامی لشکر کے ساتھ رتنبل کا پہلا ٹکراؤ 24ھ/644ئ میں ارغنداب میں ہوا جس میں رتنبل مارا گیا ۔ البلازی نے ہیاطلہ کے نام سے اس کی مملکت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ہرات تک پھیلی ہوئی تھی ۔ 25ھ /35ھ میں سیستان کے حاکم عبداللہ بن عامر شدید جنگ کے بعد کابل فتح کرلیا ۔ لیکن جب عربوںکا لشکر واپس ہوا تو مزید پانچ سال کے لئے مقامی حکمران آگئے ۔ پانچ سال کے بعد عبداللہ بن عامر نے کابل دوبارہ مسخر کیا ، مگر مقامی حکمران بدستور حکمران رہے ۔
اگرچہ اس دوران اسلامی لشکر سمندر کے راستہ ہندوستان پہنچ کر سندھ و ملتان فتح کر چکا تھا (96ھ/714ئ) ۔ اس طرح افغانستان کے عقب میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا ۔ تاہم افغانستان میں مقامی باشندے آخر تک مقابلہ کرتے رہے ۔ یہاں تک 151ھ/738ئ میں سیستان طاہریوں کا اثر و رسوخ مغربی و شمالی افغانستان تک قائم گیا ۔ جب کہ جنوبی و مشرقی افغانستان پر کابل شاہی بدستور حکمران تھے ۔ 247ھ تا 393ھ تک صفاری حکمران رہے ۔ اس کے ایک حکمران یعقوب نے بست و کابل پر قبضہ کرلیا ۔ 258ھ/871ئ تک اس نے رخج ، بلخ ، بامیان ، زمینداور ، والشبان ، تگین آباد ، قندھار ، غزنہ اور کابل فتح کر چکا تھا ۔ بقول ابن خلکان کے وہ 259ھ/876ئ سے 263ھ/876ئ تک اس اطراف و کناف (مثلاََ ملتان ، رخج ، طبیس ، زابلستان ، سندھ اور مکران) کے بادشاہوں کو مطیع کرلیا ۔ وہ پہلا حکمران تھا جس نے دریائے آمو سے سیستان اور بادغیس ، مرو اور ہرات سے کابل ، گردیز اور زابلستان تک پورے افغانستان پر قبضہ کرلیا ۔
977ئ میں سبکتگین غزنہ کا حکمران بنا ۔ اس کی ریاست کی مشرقی حدود کابل شاہی یا برہمن شاہی کی ریاست سے ملتی تھی جو وادی لمغان سے چناب تک پھیلی ہوئی تھی ۔ اس کا حکمران جیپال ایک طاقت ور حکمران تھا ۔ اس لیے اس کا تصادم غزنہ سے ناگزیر ہوچکا تھا ۔ ہوا بھی یہی لیکن جے پال کو شکست ہوئی تو اس نے صلح کی درخواست کی اور دس لاکھ روپیہ اور پچاس ہاتھی سبکتگین کو بھجنے کا وعدہ کیا ۔ سبکتگین نے یہ شرائط مان لیں ، لیکن جےپال نے اپنا وعدہ پورا ہی نہیں کیا ، بلکہ جو سفیر رقم وصول کرنے آئے تھے ان گرفتار کر لیا ۔ اس پر سبکتگین نے اقدام کیا اور جے پال کے علاقوں پر قبضہ کرلیا ۔ جس پر جے پال نے بڑے پیمانے پر لڑائی کی تیاریاں شروع کیں اور شمالی برصغیر کے راجاؤں سے اپیل کی کہ وہ مدد کو آئیں ۔ لیکن سبکتگین کے تربیت یافتہ سپاہی ہندو راجاؤں کی متحدہ فوج کے مقابلے میں کامیاب رہے اور جے پا ل کو شکست ہوئی ۔ جے پال کی فوج شکت کھا کر دریائے سندھ کی طرف بھاگی اور امیر سبکتگین کے قبضہ میں وادی لمغان کے علاہ پشاور کے قرب و جوار کے علاقے آگئے ۔ ان مفتعوقہ علاقوں پر اس نے اپنی حکومت قائم کی ۔
سلطان محمود غزنوی 991ئ میں غزنی کا حکمران بنا تو جے پال نے کثیر فوج کے ساتھ غزنی کا رخ کیا ۔ سلطان محمود غزنوی نے اس سے مقابلہ کیا اور جے پال کثیر فوج کے باوجود مسلم فوج کے مقابلے میں نہیں ٹہر سکے ۔ سلطان محمود نے ہندو شاہی حکمرانوں کے دارلحکومت وہنڈ کو تاراج کیا اور جے پال کو اس کے بیٹوں اور پوتوں کے ساتھ گرفتار کرلیا ۔ جے پال نے ایک کثیر رقم اور پچاس ہاتھی دینے کا وعدہ کرکے صلح کر لی ۔ جے پال کو غزنویوںکے مقابلے میں ایسی شکستیں ہوئیں تھیں کہ وہ شرم کے مارے زندہ نہیںرہنا چاہتا تھا ۔ چنانچہ اس نے اپنے لڑکے آنند پال کو جانشین مقرر کر کے خود کو چتا میں جلالیا ۔
1005ئ میں جب محمود غزنوی نے ملتان کے قرمطی حکمران ابوالفتح داؤد کے خلاف خلاف فوج کشی کے لئے وے ہنڈ کا راستہ اخٹیار کیا ۔ آنند پال محمود غزنوی کا باج گزار ہونے کے باوجود اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی تو محمود غزنوی نے اسے پشاور کے قریب شکست فاش دی ۔ واپسی پر اس نے جے پال کے نواسے سکہہ پال کے سپرد مقتوحہ علاقہ کی حکومت کی ، جس نے اسلام قبول کرلیا تھا ۔ اسے اکثر مورخوں نے اسے نواسہ شاہ لکھا ہے ۔ سکہہ پال نے یہ دیکھ کر کہ محمود غزنوی دوسرے ملکوں سے جنگ میں مصروف ہے اسلام ترک کر کے اپنا قدیم مذہب دوبارہ اختیار کرلیا اور سلطان کے خلاف بغاوت کردی ۔ محمود غزنیوی کو اس کی اطلاع ملی تو وہ اپنی مہم کو فوری طور پر ختم کر کے برصغیر کی جانب روانہ ہوگیا ۔ سکہہ پال کو لڑائی میں شکست ہوئی اور وہ پہاڑوں کی طرف بھاگ گیا ۔ لیکن محمود کے سپاہی اس کو گرفتار کر کے لائے ۔ محمود غزنوی نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور اس سے تاوان جنگ لے کر اسے ایک قلعے میں محصور کردیا ۔
سکہہ پال کی بغاوت ختم کرنے کے بعد اس نے ضروری سمجھا کہ آنند پال کو سزا دے ، کیوں کہ ملتان کی مہم کے دوران جب وہ پنجاب سے گزرنا چاہتا تھا تو آنند پال معمولی مزاحمت کے بعد فرار ہوگیا تھا ۔ لہذا محمود نے اس کو سزا دینا ضروری سمجھا ۔ آنند پال کو بھی اندازاہ ہوگیا تھا کہ محمود غزنوی اس کے خلاف اقدام کرے گا ۔ لہذا اس نے بھی تیاری کی اور ہندو راجاؤں کو متحدہ کر کے ایک زبر دست فوج ترتیب دینے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب رہا ۔ وہ اس مرتبہ اکیلا نہیں تھا ، بلکہ اس کے ساتھ اجین ، گولیار ، کالنجر ، قنوج ، دہلی اور اجمیر کے راجاؤں سے گتھ جوڑ کر کے ایک متحدہ محاذ بنا لیا ۔ ایشوری پرشاد کے مطابق نسل ، مذہب اور حب الوطنی قوتیں ہندو تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لئے متحد ہوگئیں ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ آنند پال کے متحدہ محاذ میں تیس ہزار کی تعداد میں ہندو کھوکر قبیلہ کے جوان شامل ہوگئے تھے ۔ لیکن سپاہ یہ بڑی تعداد خوفزدہ کرنے کے لئے کافی تھی لیکن میدان جنگ میں جوہر دکھانے کے لئے نہیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وے ہنڈ کے قریب میدان جنگ میں گھمسان کا رن پڑا تو ہندو فوج بھاگ نکلی اور بے شمار مال غنیمت محمود غزنوی کے ہاتھ آیا ۔
اب آنند پال کا دارلحکومت نندانا تھا ۔ آنند پا ل کی مخالفت کا امکان ختم نہیں ہوا تھا ، چنانچہ محمود غزنوی نے991ئ تا 1010ئ میں اس پر حملہ کردیا ۔ آنند پال نے مجبور ہو کر سر خم تسلیم کیا اور وعدہ کیا کہ وہ ہر سال غزنہ کو خراج ادا کرتا رہے گا ، اس کے علاوہ محمود غزنوی کی فوج کو ایک دستہ بھی مہیا کرے گا ۔
آنند پال کے بعد اس کا بیٹا ترلوچن پال حکمران بنا ۔ اس کا روئیہ بھی ٹھیک نہیں تھا ۔ لہذا سلطان کو اس کے خلاف کاروائی کرنا ضروری تھی ۔ ترلوچن پال کو جب پتہ چلا کہ سلطان اس کے خلاف جنگ کا ارادہ کررہا ہے تو اپنی جگہ بھیم پال کے سپرد نندانا کا قلعہ کر کے خود کشمیر چلا گیا ۔ سلطان نے ایک مختصر سی لڑائی میں بھیم پال کو شکست دے کر نندانا کے قلعہ کو فتح کرلیا اور ترلوچن کی تلاش میں کشمیر روانہ ہوا اور اس کو شکست دے دی مگر وہ ہاتھ نہیں آیا ۔


یوں برہمن (ہندو) شاہی خاندان جس کا ساڑھے تین سو سال کی حکومت کے بعد اس کاسورج ڈوب گیا ۔ اس خاندان کی بنیاد کاپسیا میں پڑی تھی اور جب افغانستان کے مشرقی حصہ پر اسلامی لشکر کا قبضہ ہو گیا تو دارلحکومت گردیز اور کابل ، کابل سے اوہنڈ (ویہنڈ) (جسے ترنگی راج میںادھے پانڈے کہا گیا ہے) پھر نندانا (جہلم کے قریب) منتقل ہوگیا ، جہاں یہ اختتام پذیر ہوا ۔


ہزارہ کے پہلے سیٹلمنٹ آفیسر کیپٹن ای جی ویس کی جانب سے دی گئی سند جاگیر

©احدِ کوشان:-
کوشان سلطنت یا کشان سلطنت ایک اتحاد پسندانہ سلطنت تھی جسے یوہژی نے باختر کے علاقوں پہلی صدی کی ابتدا میں قائم کیا۔ یہ موجودہ دور کےافغانستان کے تقریباً تمام علاقے، پاکستان اور ہندوستان کے شمالی علاقوں سے سارناتھ اور وارانسی تک پھیل گئی۔

چینی ماخذوں کی رو سے یوچیوں کا وطن شمالی چین تھا۔ 165 ؁ ق م میں وسطی ایشیا کے ایک دوسرے قبیلہ ہیونگ نو (Hinng nu) نے یوچیوں پر حملہ کر دیا اور انہیں وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یوچی سردار مارا گیا اور فاتح نے اس کی کھوپڑی کو جام شراب کے طور پر استعمال کیا۔ یوچی (yuechi ) ترک وطن کے بعد مغرب کی طرف روانہ ہوئے تو ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ راستہ میں انہوں نے دریائے ایلی (Ealy) کے کنارے دوسون (Wn sun) قبیلہ کو شکست دی۔ اس فتح کے بعد ان کی ایک شاخ جنوب کی طرف بڑھ گئی اور تبت (Tibte) کی سرحد پر آباد ہو گئی۔ یہ شاخ جسے تاریخ میں یوچی خورد (Yuechi Miner) کہلاتی ہے، جبکہ بڑی شاخ یوچی اعظم (yuechi The Garet) کہلاتی ہے۔ یوچی اعظم مغرب کی جانب بڑھتی چلی گئی، یہاں تک کہ دریائے سیحون (Oxus) کے میدان میں پہنچے اور چند سال کی جنگوں کے بعد انہوں نے سیتھیوں کو مغلوب کر لیا اور انہیں جنوب و مغرب کی طرف ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اب ساکاؤں کو نیا وطن اپنا نیا وطن تلاش کرنا پڑا، چنانچہ وہ جنوبی افغانستان کے علاقے میں آ گئے۔ اس عرصہ میں دوسون سردار کا لڑکا جوان ہوچکا تھا۔ وہ یوچیوں کے مخالفین یعنی ہیونگ نو کے سرداروں سے مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور دوسون اور ہیونگ نو قبیلے نے مل کر یوچیوں کو اس علاقے سے بھی نکال دیا، جو انہوں نے ساکاؤں سے چھین لیا تھا۔ اب یوچی مجبور ہوکر دریا جہیون کی وادی میں آ گئے اور وہاں سے ساکاؤں کو نکال کر بلخ، باختراور سغدیانہ کے علاقے پر قابض ہوکر اس علاقے میں آباد ہو گئے۔ پہلی صدی کے آخر تک یوچی خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے رہے اور پہلی صدی کے آخر میں انہوں نے خانہ بدوشوں کی زندگی ترک کر کے ایک ممتذن قوم کی زندگی بسر کرنے لگے۔ ان کے پانچ قبیلے تھے اور انہوں نے پانچ ریاستوں کی بنیاد رکھی , جن میں ایک قبیلہ کشن یا کشان تھا اور جس کے نام پر ان کی ریاست کا نام بھی کشن یا کشان پڑا۔ یہ تمام معاشرتی اور سیاسی ارتقا 10 ق م میں مکمل ہو گیا۔

©کوشان یا کشان :-

شمال مغربی چین میں’ ’یوہ چی‘‘ نام کی برادری کے کئی قبیلے تھے جنھوں نے وسط ایشیا کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ پہلی صدی قبل مسیح کے آخر تک اس برادری کے ایک طاقتور قبیلے’ ’کشان‘‘نے اپنی برادری کے بقیہ قبیلوں کو شکست دے کر ان پر اپنا قبضہ جمالیا۔ اس کے بعد پوری برادری کا نام ہی’ ’کُشان ‘‘ پڑ گیا۔ کُشان نسل کے لوگوں نے وسطی اشیا میں کاشغر اور کھیتان سے لے کر ہندوستان کے شمال مغرب میں پرتھیا اور بیکٹریا پر قبضہ کر کے سندھ، پنجاب اور شمالی ہند میں کاشی تک اپنی حکومت پھیلادی۔ کُشان شاہی گھرانے کا پہلا شہنشا ہ کڈ فائسِس اول (73۔33ء) تھا اور دوسرا بیٹا بِیم کڈ فائسِس دوم (78۔73ء) تھا۔ اس نسل کا تیسرا شہنشاہ کَنِشک(128۔78ء) ہندوستان کے کُشان حکمرانوں میں سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ وہ بودھ مذہب کا پیرو تھا۔ ہندوستان میں اس کی حکومت کشمیر، پنجاب، سندھ و موجودہ اترپردیش کے مغرب سے کاشی اور پاٹلی پُتر تک پھیلی ہوئی تھی۔ جس میں شمالی ہند کا سنبھل علاقہ بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ افغانستان، بیکٹریا اور وسطی ایشیا کے یارقند، تاشقند، کاشغر اور کھیتان بھی اس کی ریاست میں ملے ہوئے تھے۔ کَنِشک کی راجدھانی پورُشپور (موجودہپشاور )تھی۔ کَنِشک نے تقریباً 45سال حکومت کی۔

سر جمیز ایبٹ اور نواب گورنر جنرل بہادر کی جانب ے دی گئی سند جاگیر دوامی

اس کی ایک صدی تک یوچی قوم کی سلطنت کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ لیکن اس قوم کی پانچ ریاستوں میں جو ہندو کش کے شمال میں واقع تھیں منقسم ہوجانے کے بعد کم و بیش سو برس کے بعد کشن کا سردار جو کیڈ فائسس اول کے نام سے مشہور ہے۔ اس کام میں کامیاب ہوا کہ اور اپنے ہم قوم و دیگر سرداروں کو اور خود کو تمام یوچی قوم کا سردار اور بادشاہ ہو جائے اس کی صحت کی تاریخ 15ء؁ تقریباً صحت کے ساتھ مقرر کی جاسکتی ہے۔

نوٹ: تحریر لکھنے میں کچھ غلطیاں ضرور ہو سکتی ہیں لیکن کوشش کی ہے جو لکھوں شواہد کی بنیاد پے لکھوں، اگر کسی الفاظ یا جملے کی وجہ سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں ۔

تحریر:

محمد شاہ میر شاہ
E-mail : shahmirshah9292@gmail.com
Contact number: +923038004147

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں