لورہ کے مسائل کاذ مہ دار کون؟ :تحریر ،محمود عباسی

آج کل سوشل میڈیا پر گھوڑاگلی تا لورہ کوہالہ روڈ کی ازسرنو تعمیر کیلے بھرپور مہم چلای جارہی ہے۔نوجوان اپنے اپنے انداز سے دھڑادھڑ پوسٹیں شئرکررہے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے اسی شاہراہ کی تعمیر کیلے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔اس دھرتی کا باسی ہونے کے ناطے اس بات کی خوشی ضرور ہوئی کہ ہمارے لوگوں کو اپنے مسائل کا ادراک ہوا اور اپنا حق مانگنے کا شعور تو بیدار ہوا۔لیکن کیاگھوڑاگلی تا کوہالہ براستہ لورہ روڈ ہی ہمارا مسلہ رہ گیا ہے؟ اور اگر اس روڈ کی اہمیت ہے تو اسکی ضرورت اتنی دیر سے کیوں محسوس کی گئی۔
وفاقی دارالحکومت اور پنجاب سے رابطے کا واحد زمینی زریعہ اس شاہراہ کی بنیاد 1946ء میں رکھی گی۔لورہ کے عوام اج بھی انگریز کے شکرگزار ہیں کہ جھنوں نے اس کچی سڑک کی بنیاد رکھی ورنہ لورہ کے لوگ اج بھی اپنے اباواجدادکی طرح اشیاء خوردونوش گھوڑاگلی سے پیدل سروں پر اٹھاکر لانے پر مجبور ہوتے۔1985.86میں اس سڑک کوبلیک ٹاپ کیاگیا۔1999 میں اسکی کشادگی اور ازسرنوتعمیر کیلے فنڈزمختص ہونے کا سنا گیا۔کام بھی شروع ہوا۔لیکن حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی تمام مشینری واپس ہوگی۔کام بند ہونے پر ہم نے اتنا بھی نہیں پوچھا کہ اگرفنڈز نہیں تھے تو کام کیسے شروع ہوا؟ اگرفنڈز تھے تو کام کیوں بند کردیاگیا؟اور یہ ہمارا فنڈزکہاں گیا؟
علاقہ کی واحدتجارتی شاہراہ جوایک عرصہ سے لوڈ ڈمپرز۔ٹرکوں اور بسوں سمیت دیگر گاڑیوں کا بوجھ برداشت کرتے کرتے بالکل ہی جواب دینے لگی ہے۔گھوڑاگلی سے نیچے آتے ہی ایسے محسوس ہوتاہے جیسے کسی پسماندہ ترین علاقے میں داخل ہورہے ہیں۔پہلی بار آنیوالے اور کمزوردل لوگ انکھیں بند کرکے یہاں سفر کرتے ہیں۔نکاسی اب کا نظام نہ ہونے سے یہ سڑک کم اور کھنڈرات زیادہ نظر آتی ہے۔گھوڑاگلی سے لورہ کا چند کلومیٹر کاسفر گھنٹوں میں طے ہونے لگا۔بیشمار ٹریفک حادثات سے سینکڑوں گھروں میں صف ماتم بچھ چکاہے۔ہر حادثے کے بعدمیں اور میرے صحافی دوست ایک عدد کالم لکھ کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوتے رہے۔سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اس سڑک کی حالت زار کو کبھی سنجیدگی سے لیا اور نہ ہی اس سڑک کے ہچکولے روزانہ سفر کرنے والے ہمارے ممبران اسمبلی کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواسکے۔۔
اس سے بھی بڑاالمیہ کہ تقریبا ہر گاوں میں تمام سیاسی جماعتوں کے متحرک کارکنوں کا نسل در نسل سے نیٹ ورک چلا ا رہا ہے۔ گاوں کے ان بڑوں کا اپنی برادری۔قوم اور قبیلے میں اجارہ دای سسٹم اج بھی پورے زور وشور سے جاری و ساری ہے۔کسی کمزور کی کیا مجال کہ گاوں کے بڑوں کی مرضی و منشاء کے بغیر اپنے ووٹ کااستعمال کرسکیں۔الیکشن کے وقت قوم۔برادری اور اپنی عزت کے نام پر ووٹ حاصل کرنیوالے گوں کے یہ بڑے اگر کسی غریب کا کوی چھوٹا سا کام کروا بھی دیں یاکسی مظلوم کے حق میں بات بھی کردیں تو یہ احسان وہ ساری زندگی نہیں چکاسکتا۔ ہمارے لوگوں کی اکثریت اسی طور طریقے کو اپنی تقدیر سمجھ کر کی زمانے سے سہ رہے ہیں۔سرکل لورہ کے عوام نے بڑی دھوم دھام سے بڑی تعداد میں ایم این ایز۔ایم پی ایز۔سینیٹرز۔ڈپٹی سپیکر حتی کہ وزیراعظم پاکستان کو بھی اسی حلقے سے منتخب کیا۔ یہ ہماری تلخ حقیقت ہے کہ ہم عوامی نمایندوں کے انتخاب کے وقت ہمیشہ بہت جذباتی رہے۔اپنے مسایل کو پس پشت ڈال کر ہر الیکشن کو اپنا زاتی الیکشن سمجھ کر بھرپور حصہ لیا۔ خوب تقرریں کیں۔پرجوش نعرے لگاے۔ووٹ کی خاطر اپنوں سے دشمنی مول لی۔پارٹی کی جیت کو اپنی زاتی جیت سمجھ کر خوب شادیانے بجاے۔صرف ٹوٹی۔کھمبے پر ہی خوش ہوجانیوالی یہ بھولی قوم اج تک میگا پراجیکٹ کے نام تک سے ناواقف رہی۔ایم این ایز اور ایم پی ایز سے صرف ہاتھ ملانے اور سیلفی بنانے کی حسرت دل میں لیکر خود اپنے ہاتھ سے اپنے بچوں کا مستقبل تباہ کرتے رہے۔سیاسی قیادت کا قرب حاصل کرنے کیلے ہمیشہ خوشامد اور چاپلوسی کا سہارا لیا۔اور قیادت نے بھی ایسے ہی لوگوں کو اپنے قریب کیا جو جی حضوری میں سب سے اگے رہے۔ایسے حالات میں سیاسی قیادت سے علاقائی مسائل حل کرنے کی بات کوئی کیسے کر سکتا ہے؟اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قوم۔برادری کے نام پرووٹ کی تقسیم سے میرٹ کا قتل خود ہم اپنے ہاتھ سے کرتے ہیں اس سے اہل اور با صلاحیت لوگ ہار کراور ل برداشتہ ہوکر گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور ہم ایندہ پانچ سال پھرسے اپنے مسایل کا رونا روتے رہتے ہیں،یہی وجوہات ہیں ہمارے مسایل کی۔ صرف گھوڑا گلی وڈ ہی ہمارا واحد مسلہ نہیں۔

صرف گھوڑاگلی تا لورہ روڈ ہی ہمارا واحد مسلہ ہے اور نہ ہی ایک مسلہ کو ایشو بناکر باقی مسائل پر انکھیں بند کرلینا کوئی دانشمندی ہے۔ اگر ہم اپنے علاقے سے مخلص ہیں تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ اسلام آباد تا چھانگلہ گلی روڈ کا اس سے بھی بڑا 4.5 ارب کا منصوبہ جو تحصیل لورہ کا اکنامک کوریڈور تھا کو خاموشی کیساتھ ہم سے چھین لیاگیا؟ا س پر ہم نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟چھتر سے براستہ بڑوہا لورہ روڑ کا منصوبہ غائب ہوگیاہم کیوں خاموش رہے؟ ایک عرصہ مطالبے کے بعد ملنے والی تحصیل لورہ کو کم ریونیو کی وجہ سے بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا ہم کیوں خاموش رہے؟ ہم معیاری تعلیم۔صحت کی سہولیات۔صاف پانی کی عدم فراہمی اور منشیات کی بڑھتی لعنت پر ہم کیوں خاموش رہے؟ رابطہ سڑکوں کی تعمیر بالخصوص لورہ تا کھویاں روڈ براستہ نڑہوتر جہاں پر حادثات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔سیری میں حالیہ حادثہ اور اتنی قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد ہم نے کیوں خاموشی اختیار کرلی؟ کیا یہ لوگ لورہ کے نہیں تھے؟ اتنی بڑی آبادی اعلی تعلیم کیلے ایک عرصہ سے آسلام اباد۔راولپنڈی اور ایبٹ آبادمیں مقیم ہونے پر مجبور ہے تو ہم نے کبھی یونیورسٹی کے قیام کیلے احتجاج کیوں نہیں کیا؟ہر سال تعلیمی اداروں سے فارغ طلباء کی صورت میں بیروزگاری کا سیلاب نکل رہا ہے۔اور ٹیکنیکل تعلیم نہ ہونے سے پڑھے لکھے نوجوان ہوٹلز پر کام کرنے اور ورکشاپس پر کام کرنے پر مجبور ہیں
ایسے بیشمار مسائل سے دوچار لورہ کے عوام کو اس دور میں تو کم از کم احساس کرتے ہوئے اپنے رویے درست اور سوچ کو تبدیل کرنا چاہیے اور ان دیرنیہ مسائل کا حل سوشل میڈیا پہ تلاش کرنے کے بجائے عملی اقدامات کی جانب آنا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے سنجیدہ افراد کو چپ کا روزہ توڑ کر علاقائی مسائل کے حل کیلے ایک غیرسیاسی پلیٹ فارم سے عملی جدوجہدشروع کر نے کی ضرورت ہے۔ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے لیئے اب ہمیں سیاسی مصلحت کا شکار ہونے اور خاموش رہنے کے بجائے میدان عمل میں ٓنا ہوگا۔اگر ماضی کے بار بار تجربات کے بعد بھی ہم نے اپنے ٓپ کو تبدیل نہ کیا تو ہماری ٓنے والی نسلیں ہمیں کھبی معاف نہیں کرینگی۔جب تک لورہ کی مقامی لیڈرشپ اپنے اجتماعی مسایل کے حل کیلے ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوتی اس وقت تک لورہ کی ترقی کا خواب دیکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

2 تبصرے “لورہ کے مسائل کاذ مہ دار کون؟ :تحریر ،محمود عباسی

  1. Allah apko sehat tandrosti wali zindge dy apni unthak mehnat sy ap tehsil lora k masail ko ujagir kr rahy hain ….. akways with u Ch.shb best of luck…

  2. ماشاءاللّه بہت خوب آپ نے دل جیت لیہ ۔۔۔ہم ہر حال میں آپ کے ساتھ ہیں ۔۔اور یہ باتیں آب ہر بندے کو سمجنی چیے ۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں