پیران مالمولہ پلاسی۔تحریر فرید احمد شاہ

پیران مالمولہ پلاسی۔تحریر فرید احمد شاہ
ہاشمی قریشی خاندان سے تعلق ہے بہاو الدین ذکریا ملتانی مرحوم کی اولاد سے ہیں، پیر خواجہ نوری صاحب مرحوم پیل خوشاب کی اولاد کالیال فیملی سے تعلق ہے، پیر کالا شاہ کے صاحبزادے پیر جمال شاہ اور پیر بھاون شاہ کا مزار خانگا شریف سیر غربی میں ہے پیر صاحب کے ساتھ کچھ بلوچ برادری بھی آئی جنکی اولاد کی بے پناہ محبت ہے ہاشمی خاندان سے 1972سے پہلے ڈاکٹر محبوب شاہ مرحوم مزار کے خلیفہ تھے مزار کی باقاعدہ بلڈنگ نہیں تھی اسکے بعد برادری کی چند ممتاز شخصیات کی کمیٹی بنی جو اب اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ان مرحومیں میں پیر تاج محمد شاہ صاحب، پیر ظہور شاہ،پیر منور شاہ صاحب، پیر صفدر علی شاہ،پیر غلام نبی شاہ،پیر مخدوم شاہ انھوں نے مزار،مسجد،مسافر خانے اور عرس کا باقاعدہ نظام اور پیر سکندر شاہ مرحوم کو خلیفہ بنایا۔ پیر صاحبان بوجہ تبلیغ اسلام کی خاطر ادھر تشریف لائے چونکہ برصغیر پاک و ہند میں تقریبا ذیادہ تر ایریا میں صوفیاء اکرام نے دین کی روشنی پھیلاء اسی کا حصہ بنے ڈنہ ٹوپلا نوشہرہ جو سیر غربی کو تاجول اور دوسرے ایریا کو تقیسم کرتا ہے یہاں پر سردار برادری یعنی کڑال برادری اور عباسی قبیلہ گرال برادری کا حد بندی کا تنازع تھا پیر صاحبان نے اپنی حکمت اور دانائی سے تصفیہ کرایا جس سے امن ممکن ہوا اور پیر صاحبان ضامن مقرر ہوے اور واپس نہ جانے کا وعدہ کیا۔گرال برادری ابتدا سے اعلی لباس اور کھاتے پیتے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور کافی علاقہ انکے پاس تھا انھوں نے زمین بھی دی اور بعد میں رشتہ داریاں بھی رکھیں


اپراجی کا زمانہ تھا انھوں نے پہلے خانگا ہ اور پھر پلاسی کا گاوں بخشیش میں دیا اس ٹائم آبادی جہاں پانی کا چشمہ ہو وہاں ہوتی تھی اس جگہ پر وافر پانی تھا پلاسی میں پیر عبداللہ شاہ مرحوم کا مزار ہے جس کا باقاعدہ انتظام کسی کے پاس نہیں تھا مزار کے ساتھ گھر والوں کی ذمہ داری میں دیکھ بھال ہے نانیاں دادیاں انکو وافر غلہ یا امدن دے دیتے تھے پیر عبداللہ شاہ مرحوم کے تین بیٹے تھے جو علاقے میں انتہاء معروف
شخصیت اور اعلی مقام رکھتے تھے تینوں کے پاس جاگیر تھی،قلعہ دناہ کو جب علاقے کے لوگوں نے فتح کرنے کی کوشش کی تو قلعہ بلندی پر ہونے کی وجہ سے ناکامی ہوئی،علاقے کے لوگ بری طرح پھنس گے، پیران پلاسی نے اس ناکامی کو آگے بڑھ کر صلح میں بدل دیا اور سرکار کوپورے علاقے کی طرف سے یقین دانی کرائی کہ ہم پرامن لوگ ہیں جس پر ایک معاہدہ ہوا اور مالیہ باقاعدگی سے دینے کا نظام رائج کیا گیا یاد رہے ہمارے علاقے میں قلعہ دنا ہ،قلعہ ماڑی اور قلعہ ناڑا انتہاء اہمیت والی جگہ تھی اور مکھڑیال کا برج ان سرکاری جگہوں کو گرانے کی کافی کوشش ہوتی تھیں پیران پلاسی کو قلعہ دناہ کے واقعہ کے بعد جاگیر ملی اور مال مولا جو دناہ قلعہ کے عین سامنے اور پہلو میں تھا اور انتہائی خطرے میں رہتا اور یہ چک گورینی کا حصہ تھا اور ٹوٹیال برادری سے ملا اور کچھ ایریامیں وہ اب بھی رہائش پذیر ہیں کا انتظام پیران پلاسی کو ملا (حوالہ تحریک ہزارہ ڈاکٹر شیر بہادر اپنی نانا صاحب ریحام خان) جاگیر انے والے وقت میں بڑے بیٹے کے نام ٹرانسفر ہوتی ری قیام پاکستان اور قیوم خان کی اصلاحات تک باقاعدہ نظام چلا پیران پلاسی کو تقریبا 200کنال ایریا چک لورا سے سردار عطا محمد خان صاحب مرحوم کی فیملی سے گفٹ کے طور پر کسی شادی پر ملا اور دوسرا گڑھی کے میدان میں جو جنگ راجہ صاحب خان پور کے ساتھ ہوی جس میں پیر برادران کی قیادت والے دستے نے بڑی بہادری سے جنگ لڑی اور راجہ صاحب کو بگانے میں اہم کردار ادا کیا جس پر اہلیان علاقہ نے بڑے انعام واحترام سے نوازا بابا عبداللہ شاہ مرحوم کے بڑے بیٹے پیر سید شاہ مرحوم اپنی اعلی دانست حکمت عملی سے دلی سرکار کے مربے اور اپنی اباء جگہ پیل سے مستفید رئے اور اب انکی اولاد پلاسی پیل سرگودھا اور دیگر مقامات پر ہے


دوسرے نمبر پر پیر مہتاب شاہ مرحوم انکی اولاد پلاسی راولپنڈی مالمولہ پشاور اور دیگر مقامات پر آباد ہے
تیسرے نمبر پر پیر شرف شاہ مرحوم انکی اولاد سے پیر علی مردان شاہ پیر لال شاہ،پیر بہادر شاہ،پیر سجاول شاہ،پیر محمد شاہ،پیر علی حیدر شاہ، پیر مہر علی شاہ مالمولہ میں اور پٹن میں آباد ہیں


اور پانچویں اور چھٹی نسل ابھی چل رہی ہے ہمارے دادا صاحب پیر فیروز شاہ مرحوم جو پیر شرف شاہ مرحوم کے سب سے چھوٹے پوتے تھے نہایت ہی خوش اخلاق سخی اور جنبہ پرور تھے شاہانہ انداز زندگی گزارتے تھے انکی والدہ محترمہ پیل سرگودھا کے تھے بچپن نانا متحرم کے ساتھ گزا را اس لیئے زبان بھی ادھر کی بولتے جس وجہ سے اہلیاں علاقہ ان سے خاص محبت رکھتے تھے نانا محترم سے کوئی زمین وغیرہ تو کچھ نہیں ملا مگر کبھی کھبار اعلی نسل کے گھوڑے لے آتے انکو اعلی نسل کے گھوڑے رکھنے کی عادت اور پہچان تھی مری میں کاروبار بھی تھا جس سے نیزا بازی کا شوق ہوا۔ پنجاب اور ہری پور تک جاتے لارڈ کنگم جب گھوڑا گلی سے لورا تھانہ ٓئے،چونکہ شاہی سواری ادھر انا مشکل اور خطرناک تھی اس نے دادا صاحب والی گھوڑی پسند کی جسکو قابو کرنے کیلے اعلی مہارت چاہئے تھی لورہ آ کر اس نے گھوڑی کے مالک سے ملنے کا کہا اور ایک میڈل گھوڑی کے گلے میں ڈالا۔

ایک دفعہ کپتان صاحب ریالا روپڑ والوں سے گھوڑی لی جس سے گھڑی کے میدان میں نیزا بازی کے دوران گر کر شدید زخمی ہو گئے دوران بیماری گھوڑوں کا کاروبار ختم کچھ زمین رہہن اور کچھ بحق سرکار مالیہ قرق اور نمبرداری ختم۔سخاوت اور دسترخان کی وجہ سے اللہ تعالی نے دوبارہ نوازا جو اج تک الحمداللہ چل رہا ہے مالمولہ میں کچھ زمین ہندوں کی تھی جسمیں وہ دخیلکار تھے وہ زیادہ تر پیران پلاسی کی تھیں اتنی زرخیز نہیں تھیں بعد میں مہاجرین سے خرید لی گیئں قیام پاکستان کے وقت سواے ہنڈی کے جہاں باہر سے کسی نے کوشش کی اگ لگانے کی کوئی واقعہ نہیں ہوا مالکان نے اپنے اپنے دخیلکاروں کو باعزت رخصت کیا باقاعدہ فصل کا حساب کیا ہٹی کا ادھار تک ادا کیا گیا کافی وقت تک گاؤں کے بزرگوں سے ڈاک کارڈ سے رابطہ رہا۔بابا جی خان گاہ شریف سیر کی اولاد سے دیگر گاوں باوڑ تھاتھی،تپہ کیری فتوٹ ارواڑی ہیں جن سے قریبی رشتہ داریاں تعلق ہیں،اللہ تعالی سب کو اپنی حفظ امان میں رکھے۔شجرہ نسب عزیز الرحمن شاہ۔ فرید احمد شاہ۔حبیب الرحمن شاہ۔ولد پیر سہراب شاہ ولد پیر فیروز شاہ ولد پیر محمد شاہ ولد پیر شرف شاہ ولد پیر عبداللہ شاہ ولد پیر ستار شاہ ولد پیر عبدالشکور شاہ ولد پیر نور شاہ ولد پیر بھاون شاہ ولد پیر کالا شاہ ولد پیر عالم شاہ ولد پیر صدرالدین شاہ المعروف پیر خواجہ نوری ولد پیر علی قتال شاہ
تحریر کندہ- فرید احمد شاہ
وٹس اپ 00971502772968
faridahmedshah@yahoo.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں