آج سے تقریباً ایک صدی قبل کے زمانے تک ہزارہ کی دور افتادہ وادیوں میں انسانی زندگی انتہائ غربت ذدہ اور سادہ تھی ۔ بس جو کچھ قدرتی طور پر یہاں کے لوگوں کو عام میسر تھا ۔ اسی پر قناعت کرتے تھے۔ اور حالات کے مطابق اپنی عقل کو استعمال کر کے زندگی کے اوقات گزارتے تھے ۔ اس زمانے میں بسر اوقات کا واحد ذریعہ زرعی زمین تھی ۔ اس کےعلاوہ گلہ بانی دوسرا ذریعہ ہوا کرتا تھا ۔ گھر گر ہستی کا دارومدار بھی انہی ذرائع پر تھا ۔ چنانچہ خوردونوش کی اشیاء ،تن ڈھانپنے کا لباس، اوڑھنا بچھونا ،گھریلو سازوسامان ،آلات زراعت، آلات حرب و جنگ اور دیگر چھوٹی موٹی اشیاء وغیرہ سب کے سب مقامی اور گھریلو پیداوار ہوا کرتے تھے۔ ۔ مال مویشی ذیادہ پالے جاتے تھے ۔ لوگوں کی زندگیاں اپنی آبائ اراضی اور گلہ بانی کے ذریعے گزر جاتی تھیں ۔۔اشیاء خودرونوش بھی انہی دو ذرائع سے حاصل ہو جاتی تھیں ۔

ہزارہ کا 24 فیصد رقبہ زیرکاشت تھا ۔سال میں دو فصلیں فصل ربیع اور فصل خریف کاشت کی جاتی تھیں ۔ ہوتر زمینوں میں چاول کاشت کیا جاتا تھا ۔ آبی زمین کم تھی۔ بارانی زمینوں کی دو قسموں باری اور چری پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی ۔ میرا زمین جو ریت اور چکنی مٹی کا آمیزہ ہوتی ہے ۔ جبکہ زیر کاشت کالسی زمین پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر قدرے ہموار ہوتی ہے سب سے اچھی زمین باغ ہوتی تھی ۔جس میں ذیادہ تر سبزیاں، گنا اور ہلدی پیدا ہوتے تھے ۔ مکئ ہزارہ کی برآمد کی جانے والی اہم ترین فصل ہے ۔گندم ضلع کے پچیس فیصد حصے اور جو دس فیصد پر کاشت کیے جاتے تھے ۔۔ خریف کی اہم ترین فصلوں باجرہ ،جوار، کنگنی ،چن یادڑادا ،کپاس ،گنا ،ہلدی اور آلو شامل تھے ۔۔پیغمبری جو خریف کی فصلوں میں وادی کاغان کے بالائ حصوں میں پہلے کاشت کیا جاتا تھا ۔ تیل دار بیجوں میں تارا میرا کاشت کیا جاتا تھا ۔لیکن مقبول ترین قسم سرسوں تھی ۔جو چار ہزار فٹ سے ذائد بلندی تک ہر جگہ کاشت کی جاتی تھی ۔۔ خریف کی فصلوں میں دلوں کی اہم فصلیں مونگ ماش موٹھ رواں اور کلتھ ہیں ان میں ذیادہ تر کلتھ کی کاشت ہوتی تھی ۔

زمانہ قدیم چونکہ طوائف الملوکی اور بدامنی کا زمانہ تھا ۔لوگ عارضی طور پر چھپر نما مکان ہی بنایا کرتے تھے ۔جن سے وقتِ ضرورت وہ فوراً نکل جایا کرتے تھے ۔ صحن خانہ میں عموماً ایک کنواں دو چار گز گہرا ہوتا تھا ۔ جس میں وقتِ ہجرت فالتو سامان وغیرہ ڈال دیا کرتے تھے اوراوپر سے بند کر دیا کرتے تھے ۔ پھر جب واپس آتے تو سامان نکال لیا کرتے تھے ۔ عہد انگریزی میں لوگ ایک ہی جگہ مستقل آباد ہونا شروع ہوۓ اور مکانات طرزِ بودو باش کو بہتر بنانا شروع کیا ۔ شروع عملداری انگریزی میں کچے مکانات لمبے اور چوڑے جن میں ستون (تھم ) لگاۓ جاتے تھے ۔ بنانے کا رواج ہوا ۔ ان مکانوں میں نلیاواں کوٹھا ذیادہ معروف تھا ۔ ذیادہ تر گھرانوں میں ایک ہی طویل کوٹھے کا رواج تھا ۔ غلہ اور سامان رکھنے کے لیے کلہوٹے (مخروطی شکل) ٓاور کوٹھیاں مستطیل شکل کی مٹی سے بنائ جاتی تھیں ۔مکان کے درمیان میں مٹی کا ایک چوکور چولہا جس کے تین پاۓ ہی ہوتے تھے ۔اس پر روٹی پکائ جاتی تھی سب خاندان کے لوگ اس کے ارد گرد بیٹھتے تھے ۔

اس کے بعد فارغ البال گھرانوں میں ایسے مکانوں کے دونوں سروں پر ایک ایک چھوٹی کوٹھڑی بنائ جانے لگی ۔ ابتدائ دور میں مکان کے سامنے یا بغل میں ایک برآمدے کا رواج بھی پایا جاتا تھا ۔ گاؤں یا علاقے کی سرکردہ شخصیات کے ہاں مکانوں کے ساتھ ڈیوڑھی بنانے کا رواج عام تھا ۔ جو مہمان خانہ اور حجرہ کے کام آتی تھی ۔ گاؤں یا علاقے کے تمام لوگ اپنا مہمان ڈیوڑھی میں ٹھہراتے تھے ۔اہم فیصلوں کے لیے پنچایت ڈیوڑھی میں ہی بیٹھتی تھی ۔

ہزارہ کی قدیم قومیں جو پرانی تہذیب کی حامل تھیں ۔ ان کا پیشہ ذراعت اور گلہ بانی تھا ۔ وہ شمال مشرق کی انتہائ سرحد تک دھکیلی جاتی رہیں اور بعد میں آنے والی اقوام سلسلہ وار جنوب مغرب کے میدانوں میں ڈیرے ڈالتی رہیں ۔ پہلے وقتوں میں بھیڑ بکریوں کی اون سے گھر کے افراد کے لیے اونی کپڑا تیار کیا جاتا تھا ۔بعد میں سوت کے کپڑے کا رواج ہوا ۔ قدیم دور میں اہل ہزارہ کا لباس بہت سادہ گھریلو سوت کا بنا ہوا ہوتا تھا ۔ کرتہ جس کو خرقہ کہتے تھے ڈھیلا ڈھالا کھلا سینہ اور کھلے اور لمبے بازو والا ہوتا تھا ۔ سینہ پر دونوں طرف کے کپڑے ہی تسمے جن کو تنڑیاں کہتے تھے لگے ہوتے تھے ۔ جن کو آگے باندھ لیتے تھے ۔ اور جب کبھی کام کاج کرتے تو ان تسموں کو خلقہ لپیٹنے کے لیے پیچھے باندھ لیا کرتے تھے ۔ پاجامہ بہت کھلے پائینچوں والا ہوتا تھا ۔اور سر پر بڑی سی پگڑی عموماًجس کا رنگ سفید ہوتا تھا ۔لیکن کبھی کرتہ اور پاجامہ ایک خالی پتھر سے رنگ کے مثل موجودہ ملیشیا کے رنگ کا استعمال ہوتا رہا ہے ۔ وہ کرتے اور پاجامے اب ناپید ہو گۓ ہیں ۔اور ان کی جگہ قمیض اور شلوار نے لے لی ہے ۔ کچھ وقت کلاہ ذری یا سادہ اور لنگی سوتی پشاوری کا رواج تھا ۔ بعد میں ٹوپی کا رواج چلا اور اب ننگے سر رہنا عام شیوہ بن گیا ہے ۔قدیم دور میں مرد کو ننگے سر پھرنا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔

پٹو، کمبل اور دریاں بھی بھیڑ بکریوں کے بالوں سے بنائ جاتی تھیں نیز بکری کے بالوں سے دریوں کے علاوہ رسے اور رسیاں بنائ جاتیں تھیں ۔ غرضیکہ سارے اوڑھنے بچھونے کا کام ان بھیڑ بکریوں کے بالوں سے لیا جاتا تھا ۔ علاوہ ازیں گاۓ اور بکریوں کے دودھ سے تازہ مکھن جمع کیا جاتا اور اس طرح گھی کا ذخیرہ کیا جاتا تھا ۔بالائ علاقوں میں گھی ذخیرہ کرنے کا طریقہ بھی عجیب طرح کا ہے ۔ڈیڑھ کلو ایک ڈھلا بنایا جاتا تھا ۔ جس کے اوپر بھوج پتر کے باریک تہیں چڑھا کر پٹیوں سے بند کیا جاتا تھا ۔ اور اسے کسی محفوظ مقام پر دفنا دیا تھا اس طرح سالوں تک زیرزمین رکھا جاتا تھا اس قسم کے مکھن کے ڈھلے بعض مالدار لوگوں کے پاس سودوسو یا اس سے اوپر بھی ہوتے تھے ۔شادیوں اور فوتگیوں کے موقعوں پر گھی کے ان پرانے ڈھلوں کو نکالا جاتا تھا ۔ یہ گھی بہت ذائقہ دار ہوتا تھا اور اس سے دیسی حلوہ پکایا جاتا تھا ۔ اور اس حلوے کو بڑے بڑے طباخو ں میں بھر کر پیش کیا جاتا تھا اور پرانے لوگ مزے لے لے کھاتے تھے ۔ شادیوں میں عموماً کلتھ کی دال اور حلوہ ہی پیش کیا جاتا تھا ۔پاوں کے لیے اس زمانے میں جوتوں کا انتظام بہت سہل ہوتا تھا ۔ بھبھڑ گھاس سے بہت آرام دہ جوتی تیار کی جاتی تھی ۔اس کو پولاں کہا جاتا تھا یہ جوتی ہر کوئ تیار کر سکتا تھا ۔

سردیوں میں سر پر اونی ٹوپی لمبا اونی چوغہ اور پٹو عام لباس تھا ۔ اس زمانے میں لکڑی پتھر اور مٹی کے بنے ہوۓ برتن جن میں رکابیاں ،ڈولے ،طباخ ، کوزے ، گھڑے وغیرہ استعمال کیے جاتے تھے ۔ بید کی شاخوں سے طشتریاں اور ٹوکریاں بنائ جاتی تھیں ۔ یہ برتن بنانے کے لیے مقامی ہنرمند لوگ ہوتے تھے اور اسی طرح ہنر مند لوگ آلات زراعت تیار کرتے تھے ۔ مشہور مثل ضرورت ایجاد کی ماں ہے پر عمل پیرا ہو کر ہر وہ چیز جس کی ضرورت محسوس ہوئ ایجاد کر لی جاتی تھی ۔ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ بھی چوکھا کے مصداق کم خرچ بالا نشین ہر چیز بغیر کسی قیمت کے میسر تھی ۔آج جب گھریلو زندگی پر نظر دوڑائ جاۓ تو درآمدات کی ایک طویل فہرست سامنے آتی ہے جبکہ قدیم وقتوں میں صرف کپڑا ،نمک ،تمباکو اور گڑ درآمد کیا جاتا تھا ۔ باقی ہر چیز مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی تھی ۔ اس دور میں دور دراز سے کوئ چیز خرید کر لانا بھی جان جوکھوں کا کام تھا ۔ قدیم دور میں جندر ، چرخہ ، اور چکی حیاتِ انسانی کا لازم جزو تصور کیے جاتے تھے ۔