کوٹ نجیب اللہ ہزارہ کا نامور کھٹانہ خاندان:تحریر و تحقیق محمد امجد چوہدری

*ہزارہ کا ناموٙر گُوجر کھٹانہ خاندان*
( تحریروتحقیق محمدامجد چوہدری )
کوٹ نجیب اللہ ہزارہ کے مشہور و معروف گوجرگھرانے کی تاریخ بہت پرانی اور بڑی طویل ہے سردار فیملی کے آباواجداد میں بڑے بڑے مشہور روسا اور مقدم پیدا ہوئے جو اپنے دور میں علاقہ کے حکمران بھی رہے. مقدم سکندر ،مقدم دولت بیگ ، مقدم مشرف گوجر ،میراحمدگوجر ، مقدم غلام محمد گوجر ، مقدم میر عبداللہ گوجر مجسٹریٹ ، مقدم محمداشرف ، مقدم میر عالم ڈپٹی کلکٹر ، مقدم سیدعالم انسپکٹر پولیس ، سردار محمداکبر ممبرڈسٹرکٹ بورڈ ہزارہ ہزارہ جرگہ ممبر 1941، مقدم سکندر اس خاندان کے مورث اعلٰی گزرے ہیں ۔ مقدم مشرف گوجر اس علاقہ کے انتہائ زیرک عقلمند ، ایک صالح ، بہادر ، تجربہ کار منتظم رئیس سردار تھے-ہزارہ گزیٹئر اور تاریخ ہزارہ میں بھی ان کی قابلیت و لیاقت کا اعتراف کیا گیا ہے ۔


مقدم میر عبداللہ جن کو قدیم دور میں علاقہ مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل تھے ۔ان کا شجرہ کچھ یوں بیان کیا گیا ہے ۔۔مقدم غلام محمد خان بن میراحمد خان بن احمد خان بن مشرف خان بن قطب الدین خان بن کریم خان بن رحیم خان بن ابراہیم خان بن کمال الدین خان بن سکندر خان ۔ ان سب ناموں کے پہلے مقدم یعنی سردار قوم نمائندہ کا لفظ ہے ۔ جس کے معانی ہیں آگے چلنے والا ۔ یہ لقب کوٹ نجیب اللہ کے اس کھٹانہ خاندان پر صادق آتا ہے ۔کیونکہ وہ عہدقدیم سے ہی تعلیم اور عہدوں کے لحاظ سے ہزارہ بھر کے گوجروں میں سب سے آگے رہے ہیں ۔
مقدم غلام محمد خان کے پانچ فرزند تھے میرعبداللہ خان ، میر عالم خان ، سید عالم خان ، محمدالدین خان ، سردار محمد خان اس خاندان کی مختلف شاخوں میں کئ مقتدر ہستیاں گزری ہیں سردار محمد عالم خان (وزیر مال وزراعت قلات، گلگت بلتستان کے پاکستان کی طرف سے پہلے پولیٹیکل ایجینٹ ) ، سردار خورشید عالم خان ، سردار فخر عالم خان سابق چیف جسٹس پشاور ہائ کورٹ اور چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان ، جنرل (ر)سردار محمد خالد (ڈپٹی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر )، سردار محمد آصف (ائر وائس مارشل )، کرنل( ر) سردار زمرد مرحوم ،
میجر (ر) سردار احسن خان ،میجر (ر) ضیاء عالم، بریگیڈیئر سردار سہراب عالم ، میجر افتخار عالم ، سردار محمدمشتاق سابق ایم این اے ، سردار محمد پرویز (ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ( ر) فیڈرل گورنمنٹ سروسز ہسپتال اسلام آباد) ۔
سردار محمد طارق ( ریٹائرڈ ڈپٹی چئرمین واپڈا ، سابق جنرل منیجر تربیلا ڈیم)،
سردار شجاع(سیکنڈ سیکرٹری وزارت خارجہ پاکستان )، سردار ہارون الرشید سابق ممبر ضلع کونسل ، سردار محمد انور ایس پی ریلوے پولیس ، سردار محمد عارف جنرل منیجر ٹیلی فون فیکٹری ، سردار محمد اختر ڈپٹی سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن اسلام آباد ،سردار اورنگزیب پولیس انسپکٹر ، میجر جاوید اختر ، میجر محبوب الہی ،سردار چن زیب الیکشن آفیسر کے ذریعے خاندان کی شہرت و نیک نامی آسمان کی بلندیوں تک پہنچی ۔ اسی خاندان کے ممتاز چشم وچراغ خان بہادر سردار محمد میر عالم خان محکمہ مال میں افسر تھے ۔ مختلف مقامات پر خدمات سرانجام دیتے رہے ۔ سردار محمد عالم انہی کے ہاں متولد ہوئے ۔ سردار صاحب کا مقام ولادت ریاست الور انڈیا ہے. اور ابتدائ تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی ۔ حصول تعلیم کے باقی مدارج پشاور میں کالجیٹ سکول میں مکمل کیے ۔ چیف کمشنر سرحد روسس کیسپر ، صاحبزادہ عبدالقیوم ، اور آپ کے والد سردار میر عالم خان اسی سکول کے بانی تھے ۔ اور سردار محمد عالم خان اس کے پہلے طالب علم تھے ۔سردار صاحب ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد محکمہ مال میں نائب تحصیلدار بھرتی ہو گئے ۔
یہ 1920 کا زمانہ تھا ۔ آپ کی تعیناتی کلاچی ڈیراسماعیل خان میں ہوئ ۔ پھر ڈیرہ غازی خان اور پبی میں سیٹلمنٹ ٹریننگ میں نائب تحصیلدار رہے ۔
سر فراسس اس وقت سیٹلمنٹ کمشنرتھے۔
930 کے لگ بھگ کاسال تھا۔ جب سکندرمرزانےبندوبست کی تربیت سردار صاحب سے حاصل کی تھی ۔ اور وہ آپ کو سیٹلمنٹ میں غیرمعمولی مہارت کے اعتراف کے لیے استاد کے نام سے پکارتے تھے ۔
1932 میں آپ نے بطور کلکٹر و ڈپٹی کشمنر ریاست الور کا چارج کا سنبھالا اور 1933کے شروع تک یہاں خدمات سرانجام دیں اور کچھ عرصہ تک تحصیلدار مردان کے امور سرانجام دیے ۔ پہلے مردان اور پشاور ایک ضلع تھا ۔ سردار محمد عالم زبردست انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہونے کے ساتھ دیانتدار ، مدبر ، اور فرض شناس تھے ۔ جہاں بھی رہے ایک کامیاب اور ماہر افسر کی حیثیت سے پہچانے گئے چنانچہ 1939 میں آپ کو اسسٹنٹ سیٹلمنٹ کمشنر ہزارہ مقرر کیا گیا ۔ اور آپ نے 1945 تک اس عہدہ پر فائز رہ کر نہایت عمدہ کارکردگی اور احسن اقدام کی مثال قائم کی ۔


1945 میں آپ کی خدمات ریاست قلات کے لیے بطور وزیر مال و زراعت ڈیسپوٹیشن حاصل کی گئ ۔ تب بڑٹش انڈیا گورنمنٹ کی حکمرانی تھی ۔
جون 1947 تک سردار صاحب نے ریاست قلات کی تعمیروترقی اور انتظام کے لیے اپنےتجربہ اور مہارت کا بھرپور استعمال کیا ۔
1947 میں جب پاکستان کی سرزمین آذادی کی نعمت سے ہمکنار ہوئ. اور اہل وطن نےپرچم ستارہ و ہلال کو رہبر بنا کر ترقی و کمال کا سفر شروع کیا تو اس وقت گلگت ایجینسی کے حالات بڑے دگرگوں تھے اندروں علاقہ بدامنی ، بغاوت ، وسائل رسل و رسائل کی شدید قلت تھی اور سرحدوں پر لڑائ گرم تھی ۔ اور حالات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے خصوصی صلاحیت رکھنے والے ماہر بارعب و بااصول اور بڑے مدبر منتظم کی ضرورت تھی ۔ چنانچہ وزیراعظم لیاقت علی خان شہید نے گلگت ایجینسی کےلیے آپ ہی کا انتخاب کیا اور سردار صاحب نے پاکستان کے پہلے پولیٹیکل ایجینٹ کے طور پر ستمبر 1947 میں گلگت کا انتظام سنبھالا . سردار محمد 16 نومبر 1947 کو جب بذریعہ جہاز گلگت پہنچے تو میتھی سن، براون اور حیدر نے سکاوٹ کے ساتھ استقبال کیا ۔اسی دن سردار محمد عالم خان کی آمد کے ساتھ ہی پاکستانی دور شروع ہوا ۔ لوگ خوش ہوئے کہ ایجینسی اور ایف سی آر کا خاتمہ ہوا ۔ اور علاقہ قومی دھارے میں شامل ہو گیا ۔ 17 نومبر پولیٹیکل ایجنٹ کا دفتر تیار کیا گیا اور اس پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا ۔ سردار محمد عالم خان کو گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ پرانے گورنر سے چابیاں لے کر آپ کے حوالے کی گئیں ۔ جملہ خفیہ فائلیں اور اہم نوٹس مطالعے کے لیے پیش کیے گئے۔ اسی دن کیپٹن بلدیو سنگھ اور چند سکھوں نے ہتھیار ڈال دیے ۔ والیان ریاست آپ کو سلام کرنے کے لیے حاضر ہوئے ۔ سردار محمد عالم خان بڑے مختصر وقت میں اپنی خاص حکمت عملی کے ذریعے اپنے فرائض منصبی سے جس خوش اسلوبی سے عہدہ برآ ہوئے اس کے ثبوت کے لیے قائداعظم گورنر جنرل آف پاکستان کے اس ٹیلیگرام کا حوالہ دینا کافی ہے جو آپ نے سردار صاحب کو ان کے حسن انتظام پر مبارکباد دینے کے لیے ارسال فرمایا تھا. .
گلگت ایجینسی میں آپ نے جہاں ایک طرف سیاسی امن وامان قائم کیا وہاں بہت سے تعمیری منصوبے بھی مکمل کیے جن میں گلگت سے سکردو اور ہنزہ کے مسافروں کی آمدورفت کے لیے پل ، گلگت تا بابوسر ٹاپ سڑک ، تعلیمی ادارے ، گلگت سکاوٹ کی تنظیم و انصرام وغیرہ ۔ گلگت سکردو رابطے کے لیے پل کی سنگ بنیاد رکھنے کے لیے اس وقت کے وزیرامور کشمیر و شمالی علاقہ جات نواب مشتاق گورمانی تشریف لائے تو انہوں نے اس پل کا نام عالم برج تجویز کیا ۔ اور کہا کہ علاقے کی تعمیروترقی کے لیے سردار صاحب جو انقلابی کارنامے سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کے اعتراف کے لیے میرا جی چاہتا ہے کہ سردار محمد عالم کا مجسمہ بنا کر یہاں نصب کریں ۔مگر اسلام مجسموں کی اجازت نہیں دیتا ۔


1948 میں سردار صاحب نے فارورڈ جہاز کے زریعے چلاس اور بابوسر ٹاپ کا ایک کامیاب دورہ کیا جس کے پائلٹ ائیر وائس مارشل اصغر خان تھے ۔ اسی سال آپ نے سکھ تخریب کاری کی بیخ کنی بھی کی ۔ اور 250 سکھ قید کیے ۔ گلگت تا بابو سر ٹاپ سڑک کی تعمیر بھی آپ کا شاندار کارنامہ تھا ۔ میجر طفیل شہید( نشان حیدر) بھی ان دنوں گلگت میں تھے سردار صاحب نے انہیں گلگت سکاوٹ میں لیا اور کشمیر آپریشن میں ان سے بھرپور تعاون کیا میجر طفیل شہید سردار صاحب کے بڑے مداح اور عقیدت مند تھے۔ اور دفاعی امور پر ان سے تبادلہ خیال اور مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اسی زمانے میں ڈاکٹر عبدالرشید چوہدری صدر انجمن مرکزیہ گوجراں پاکستان بھی گلگت میں میڈیکل سروس انجام دے رہے تھے اور تینوں حضرات جہاں گلگت کی سیاسی و انتظامی ، دفاعی اور طبی خدمات کے لیے دن رات کوشاں تھے ۔ وہاں گلگت میں کافی تعداد میں آباد گوجر قوم کی اصلاح و بہبود کے لیے بھی غوروفکر اور عملی جہدوجہد کرتے رہتے تھے ۔گلگت ان دنوں کئ طرح کے مسائل کا شکار تھا ۔
کشمیر کی جنگ کے زمانہ میں روزانہ بمباری ہوتی تھی ۔ سکول کی گھنٹی سے سائرن کا کام لیا جاتا تھا ۔ زخمیوں اور متاثرین و بے خانما لوگوں کی بڑی تعداد تھی۔ ذرائع آمدورفت اور مواصلات منقود تھے۔
سردار صاحب نے 1951 تک گلگت کے حالات کو بڑی حد تک بہتر بنا دیا تھا ۔ اور یہ حسن انتظام آپ ہی کا حصہ تھا ۔
1951 میں سردار صاحب کو حکومت پاکستان نے خیبر ایجینسی کا پولیٹیکل ایجینٹ مقرر کیا یہاں اس وقت ولی خان کوکی خیل کی باغیانہ سرگرمیاں پختونستان موومنٹ کے نام عروج پر تھیں ۔ اور علاقہ ہتھیانے کی کوششیں کی جارہی تھیں ۔ اور اب خیبر ایجینسی میں ایک بڑے تجربہ کار اور باتدبیر ، بابصیرت اور نڈر منتظم کی ضرورت تھی ۔ جو منبع و منجھدھار میں کود کر امن وامان کے سفینے کا ناخدا بنے ۔ چنانچہ سکندر مرزا نے آپ کو ایکشن کا حکم دیا ۔ سردار صاحب نے اپنی خداداد صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے وطن کی سالمیت اور امن کو مستحکم کیا ۔ اور کوکی خیل شورش کا سدباب کیا جس کے نتیجہ میں پختونستان موومنٹ دب گئ ۔ اس کے بعد سردار صاحب کو مالاکنڈ ایجینسی ، پاڑا چنار ،اور نارتھ میران شاہ وزیرستان کا پولیٹیکل ایجینٹ تعینات کیا گیا ۔


سردار صاحب 1954 تک بڑی محنت حُب الوطنی ، فرض شناسی سے یہاں کے گلوں کو نکھارتے رہے ۔چمن سنوارتے رہے اور تعمیروترقی کے بیج بوتے رہے ۔شاہراہ ریشم کا ماسٹر پلان آپ نے ہی جنرل ایوب خان سے ابتدائ طور پر منظور کرایا تھا ۔ اس پر بھی آپ کا ایک اہم تعمیری حصہ تھا اسی منصوبے کو آج سی پیک کی شکل دی گئ ہے ۔
بعدازاں ایوب خان نے آپ کو سوات انکوائری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا تھا ۔ سردار صاحب اپنے فیلڈ میں ایک ماہر ترین اور کامیاب افسر تھے۔ آپ کو جس امتحان میں ڈالا گیا سرخرو ہوئے ۔ آپ کا ایک نمایاں وصف دیانت داری تھی ۔
40 سالہ سروس کے دوران بڑے بڑے اعلی عہدوں پر فائز رہے سُپر شخصیات کی نگاہوں میں بھی محترم اور مقتدر تھے۔ مگر اپنے لیے ناجائز تصرف کو روا نہیں رکھا ۔ بطور سیٹلمنٹ کمشنر لاکھوں افراد کو گھر اور جائے پناہ مہیا کی مگر اپنے لیے کوِئ جائیداد اور مال ودولت جمع نہیں کیا ۔
1954 سے 1962 تک میں آپ نے راولپنڈی /پشاور کے اسٹیبلیشئن کمشنر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں اور ملک وقت کی تقریباً 40, 41 سال گوناں گوں اور عظیم خدمات کے بعد 1963 میں ریٹائرمنٹ لے لی ۔ افسران بالا آپ کی ریٹامنٹ سے متفق نہ تھے اور ان کی خواہش بلکہ اصرار تھا کہ سردار صاحب کی صلاحیتیں تعمیروطن میں مزید صرف ہوں مگر وہ شاید بہت تھک چکے تھے ۔ اس لیے کوٹ نجیب اللہ میں اپنے گھر لوٹ آئے ۔ ریٹامنٹ کے عبدالقیوم خان وزیرداخلہ اور دیگر سیاستدانوں نے بڑی تحریک کی کہ آپ سیاست میں حصہ لیں اور اپنی بھاری خدمات اور مقتدر شخصیت کے ذریعے اہم سیاسی مقام حاصل کریں۔ مگر آپ بے تاج بادشاہ رہ کر خاموشی سے علاقہ کے عوام کی فلاح اور رہنمائ میں مصروف رہے
20 مارچ 1991 کو شب تین بجے آپ علالت کے باعث سی ایم ایچ لے جائے گئے معالجین شب وروز تگ ودو میں مصروف تھے۔ اور مسِیحان شفا کی پوری تمنا تھی ۔کہ ایک قیمتی انسان سے دنیا محروم نہ ہو اور دوسری طرف کارکنان قضا و قدر اس وقت مقررہ کے منتظر تھے۔ جب سردار محمد عالم خان نے اس عالم فانی کو چھوڑ کر عالم بقا کی طرف روانہ ہو جانا تھا ۔ گو یہ عالم فانی ہے اور سردار محمد عالم خان کا جسم آنکھوں سے اوجھل ہے مگر اور نیک لوگوں کی طرح ان کا نام بھی تادیر ذندہ رہے گا۔ …………………. . . . . . . . . . .

(قسط اول )

ماخذات
1- ہزارہ گزیٹئر 1907
2- شاہانِ گوجر علامہ نواب عبدالمالک اکھوڑوی
3- عکسِ گلگت بلتستان شیر باز علی برچہ
4- ماہنامہ گوجر گونج لاہور1992
5- تاریخ ہزارہ (اول ایڈیشن)
ڈاکٹر شیر بہادر پنی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں